حکیمانہ ....حکیم سید محمد محمود سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com
رواں ماہ 9 اور 10 ستمبر کو بھارت کی میزبانی میں جی 20 ممالک کی معاشی واقتصادی تنظیم کا غیر معمولی اجلاس نئی دہلی میں ہوا، اجلاس کا ایجنڈا رکن ممالک کو معاشی‘ تجارتی اور اقتصادی حوالے سے ایک پلیٹ فارم پر لانا اور مشترکہ اقدامات کی پیش رفت کرنا تھا۔ ایجنڈے‘ وعدے اور نئے معاہدوں کے تناظر میں بھارت اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔ معاشی اور اقتصادی ایجنڈے کے بابت بعد میں گفتگو کی جائے گی پہلے یہ بتا دیں کہ جی 20 ممالک کی تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد کیا ہے اور کن کن ریاستوں کے عزت مآب نمائندوں نے دو روزہ اجلاس میں شرکت کی۔ امریکہ روس‘ چین‘ ارجنٹینا‘ آسٹریلیا‘ برازیل‘ کینیڈا‘ فرانس‘ جرمنی‘ انڈونیشیا‘ اٹلی ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ میکسیکو‘ سعودی عرب‘ جنوبی افریقہ‘ ترکی‘ برطانیہ اور یورپی یونین کی شرکت نے یقیناً بھارت کو معاشی واقتصادی میدان میں سر اٹھانے کا موقع بخشا۔چین اور روس کے صدور شرکت نہ کرسکے، چینی وزیراعظم اور روسی وزیرخارجہ نے اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کا چراغ روشن کیا۔ جی 20 ممالک کے صدور ‘ وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ کا بیک وقت اجلاس میں شرکت کرنا خطے کے لیے بڑی خبر تھی میزبان ملک کی حیثیت سے بھارت نے بنگلہ دیش ‘ مصر ‘ نائیجریا‘ متحدہ عرب امارات‘ عمان‘ سنگار پور‘ نیدر لینڈ ( ہالینڈ) اورماریشش کو بطور مبصر مدعو کیا لیکن دانستہ طورپر پاکستان کو اجلاس میں دعوت نہیں دی گئی۔
تنظیم کا پہلا سر برای اجلاس 2008 میں واشنگٹن میں ہوا تھا۔ جی 20 کا سر براہی اجلاس سال میں ایک بار ہوتا ہے۔ سربراہی باری باری بھی رکن ممالک کے پاس آتی ہے۔ آئندہ اجلاس کی سربراہی برازیل کرے گا اس سے اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی معیشت کا 75 فی صد عالمی تجارت کا حصہ ان ہی ملکوں کے ہاتھوں ہے۔ یہ ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ گروپ کا اصل مقصد معاشی نظام کے مختلف پہلوو¿ں اور مسائل کرتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں دیر پا ترقی صحت زراعت، توانائی، ماحولیاتی تبدیلی اور انسداد بد عنوانی جیسے معاملات کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی 2030 تک انڈیا کی معیشت کو پانچ ٹریلین ڈالر تک لے جانے کی بات کر رہے تھے۔ ایسے میں دنیا بھی انڈیا کو مذہبی ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ دوسری جانب سعودی ولی کے ولی عہد بھی چاہتے ہیں کہ دنیا سعودی عرب کو تیل کی کمائی کرنے والے ملک کی حیثیت سے جانے کے بجائے اسے نئے کام سے پہنچانے وہ نیا کام سعودی عرب نیوم پرا جیکٹ" ہے جس کا بجٹ 500 ارب ڈالر (تقریباً 37 لاکھ کروڑ روپے) ہے۔ سعودی عرب انڈیا سے ٹیلنٹ اور سرمایہ کاری کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن ابھی تک سعودی عرب نے پاکستان سے ایسی کوئی ڈیمانڈ نہیں کی۔ " کیوں کہ وہ جانتا ہے، یہاں قیادت کا فقدان ہے اوریہاں بات چیت کی گارنٹی دینے والا کون ہے؟جی 20 ممالک کے کامیاب اجلاس‘ ایجنڈے اور معاہدوں کو آپ بھارت کی کامیاب خارجہ پالیسی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ایک طرف ہم میں جو ایشیاءکپ2023 کے میزبان ملک ہونے کے باوجود اس بڑے اور عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ کو اپنے ملک میں مکمل طور پر نہ کراسکے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث ایشیاءکپ کے میچز پاکستان اور سری لنکا میں ہوئے، دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان آکر ایشیاءکپ کھیلنے سے صاف انکار کر دیا!! یہ ہے ہماری خارجہ اور سپورٹس پالیسی کے مناظر!!
یہ درست ہے کہ دنیا کا نیا روپ اقتصادی ومعاشی میدان میں مضبوطی کی صورت میں دیکھا جارہا ہے جو ممالک اقتصادی ومعاشی طورپر مستحکم ہیں وہی اپنی رعایا کو بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کرانے کے لیے تیار کررہے ہیں ۔آج پاکستان کی معیشت کسی حوالہ سے قابل ذکر اور قابل گفتگو نہیں رہی کچھ عرصے قبل ہماری معیشت کا 100 واں نمبر تھا جو ماشاءاللہ اب تنزلی کرتے کرتے 157 تک آن پہنچا ہے۔پاکستان میں معاشی حالات کا یہ عالم ہے کہ لوگ بجلی بل دینے کے قابل نہیں رہے ،بجلی بلوں کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں ۔ان احتجاج‘ مظاہروں اور لوگوں کے غم وغصے کے باوجود حکومت نے بجلی کے نرخ میں مزید اضافہ کردیا۔ گویا حکومت اور رعایا کے مابین فاصلوں کو اور گہرا کرکے عوامی غضب وتشویش کو مزید پھلایا جارہا ہے۔دنیا بھر میں حکومتی رعایا کے لیے سہولتوں کے دروازے کھول کر آگے بڑھتی ہیں۔ بھارت‘ بنگلہ دیش اور چین کی مثالیں ہمارے ساتھ ہیں۔ ہماری حکومت سہولتوں کی بجائے بےروزگاری اور مہنگائی کے ساتھ اپنی قوم کو خود سے مسلسل دور کررہی ہے ایسا کب تک ہوگا؟