الیکشن کی تاریخ پر ابہام کیوں؟

پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کب ہوں گے یہ ایک مخمصہ بن چکا ہے کیوں کہ صدر کہتے ہیں کہ وہ الیکشن کی تاریخ دیں گے جبکہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ یہ اس کا اختیار ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ دے۔اسی سلسلے میں چند روز قبل صدر عارف علوی نے عام انتخابات کیلئے تاریخ بھی تجویز کر دی ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ آرٹیکل 48(5) کے مطابق قومی اسمبلی کیلئے عام انتخابات قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے 89ویں دن یعنی پیر 6 نومبر 2023 کو ہونے چاہئیں،چیف الیکشن کمشنر، سکندر سلطان راجہ کے نام خط میں صدر مملکت نے کہا کہ انہوں نے صدر کے طور پر نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کو تحلیل کیا،آئین کے آرٹیکل 48(5) کے تحت صدر کا اختیار ہے کہ اسمبلی میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے، تحلیل کی تاریخ سے نوے دن کے اندر کی تاریخ مقرر کرے، آرٹیکل 48(5) کے مطابق قومی اسمبلی کیلئے عام انتخابات قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے 89ویں دن یعنی پیر 6 نومبر 2023 کو ہونے چاہئیں، آئینی ذمہ داری پورا کرنے کی خاطر چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا تاکہ آئین اور اسکے حکم کو لاگو کرنے کا طریقہ وضع کیے جا سکے، چیف الیکشن کمشنر نے جواب میں برعکس موقف اختیار کیا کہ آئین کی سکیم اور فریم ورک کے مطابق یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ اگست میں مردم شماری کی اشاعت کے بعد حلقہ بندیوں کا عمل بھی جاری ہے اور آئین کے آرٹیکل 51(5) اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 17 کے تحت یہ ایک لازمی شرط ہے،صدر عارف علوی کے مطابق وفاقی وزارت قانون و انصاف بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسی رائے کی حامل ہے، وفاق کو مضبوط بنانے، صوبوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کے فروغ اور غیر ضروری اخراجات سے بچنے کیلئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ہی دن کرائے جانے پر اتفاق ہے، الیکشن کمیشن ذمہ دار ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے آرٹیکل 51، 218، 219، 220 اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت طے شدہ تمام آئینی اور قانونی اقدامات کی پابندی کرے۔ تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت اور اس بات کے پیش نظر کہ کچھ معاملات پہلے ہی زیر سماعت ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی حاصل کرے۔ادھر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں صدر عارف علوی پی ٹی آئی چیئرمین کی نمائندگی کررہے ہیں الیکشن کمیشن کو کام کرنے دیں یا پھر ختم کر دیں۔
دوسری طرف صدر عارف علوی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے خط میں انتخابات 6 نومبر کو کرانے کی تجویز کے حوالے سے آئینی و قانونی ماہرین نے کہا کہ صدر نے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال نہیں کیا ہے وگرنہ وہ تجویز نہیں تاریخ کا اعلان کرتے۔آئینی ماہرین کی رائے ہے کہ صدر کا خط ایسا ہی ہے جیسے الیکشن تاریخ کے لئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ بادی النظر میں الیکشن تاریخ کیلئے ایسا ہو رہا ہے گیند کلیم اللہ سے سمیع اللہ کے پاس اور گول مس ہو گیا۔ گیند باہر چلی گئی، کا کھیل کھلا جا رہا ہے۔ صدر نے تجویز دے کر یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ عملی طور پر صدارتی عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد اپنے آئینی اختیارات سے دست بردار ہو چکے ہیں وگرنہ وہ خط کے ذریعے تجویز نہیں تاریخ کا اعلان کرتے۔ 
بعض ماہرین کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے بعد الیکشن ڈیٹ دینے کا اختیار الیکشن کمشنر کے پا س ہے مگر آئین کے مطابق یہ حق صدر کے پاس ہے، قانون نہیں آئین بالادست ہوتا ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ 
صدر عارف علوی نے 6 نومبر کو الیکشن کرانے کی تجویز دی ہے، کیا ان کے تجویز کردہ دن پر الیکشن ہو پائیں گے؟ کیاالیکشن کمیشن صدر کی تجویز پر عمل کرنے کا آئینی طور پر پابند ہے؟کیا وزارت قانون و انصاف صدر کی تجویز سے متفق ہو گی؟کیا الیکشن کمیشن دو ماہ کے اندر الیکشن کرانے کیلئے تیار ہو جائے گا؟صدر کو آئینی طور پر تاریخ دینے کا اختیار ہے، اگر صدر کے تجویز کردہ دن پر الیکشن نہ ہوئے تو کیا ہو گا؟کیا ملک میں پھر نئی آئینی جنگ ہونے جا رہی ہے۔ اتنے سارے سوالات ہیں کہ عوام کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کون کرے گا۔ ایک ابہام ہے بلکہ ابہام کی بجائے کہا جائے کہ الیکشن کی تاریخ ایسی گتھی بن چکی ہے جسے سلجھانا اب کسی ایک شخص کے بس کی بات بھی نہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ الیکشن ایک جمہوری عمل ہے اور اس کو جلد از جلد اگر سیاسی جماعتیں مل کر سلجھا لیں تو بہتر ہو گا اور اس پر پائے جانے والے شکوک و شبہات کو ختم کر دیا جائے تو یقینا ملک سیاسی بحران سے نکل سکتا ہے، ہماری دعا ہے کہ ملک سیاسی اور معاشی دونوں بحرانوںسے نکلے تاکہ ملک پر موجود معاشی اندھیرے دور ہوں، آمین۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...