اسلام آباد میں مرحومہ سرفراز اقبال کاگھر شاعروں،ادیبوں ،جرنیلوں ،ججوں اوروفاقی سیکرٹریوں اوران کے دوستوں کاآستانہ تھا۔فیض ، فرازاور منیر نیازی کے علاوہ دیگر بہت سے شعرا ءاس گھر کو رونق بخشی۔ ان کے بیٹے غالب اقبال کینیڈا ، برازیل اور دیگر ممالک میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ۔بیگم سرفراز اقبال کے علاوہ سابق بیوروکریٹ روئیدادخان کاآستانہ بھی دارالخلافہ میں ہے جہاں سابق اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ دیگر شخصیات کااکٹھ ہوتا ہے ۔روئیداد خان کاآستانہ صرف خواص خانہ ہی ہے ۔وہاں عام آدمی نہیں جاسکتا۔روئیدادخان صرف اپنی بات کرتے ہیں کسی کی سنتے نہیں۔اسلام آباد،لاہور،فیصل آباداورجہلم۔پاکپتن شریف اور دیگر شہروں میں ایسے آستانے ہیں جہاں علمی مباحثوں کے علاوہ روحانہ علاج بھی ہوتا ہے ۔گوجرخاں میںپروفیسررفیق اختر نے سیاستدانوں سے لے کربیوروکریٹس ،صحافیوںاوردانشوروں کومسحور کررکھا ہے ۔جہلم میں بابا عرفان الحق کا آستانہ روحانی مرکز ہے ۔سیٹلائٹ ٹاﺅن راولپنڈی میں حاجی عبدالغفور کاآستانہ بھی روحانی علاج کی ڈسپنسری ہے۔ڈسپنسری اس لیے کہ وہاں وظائف کے ساتھ دوا بھی بتائی جاتی ہے۔
گوجرانوالہ میں بھی کسی وقت میںصاحبزادہ فیض الحسن مرحوم کا بھی یہی دستورتھا کہ وہ دعا بھی کرتے اورساتھ میںہومیوپیتھک دواکی کوئی پڑیا بھی سائل کو عطا کرتے۔ لاہور میں بابایحییٰ رہتے تھے شاید اب بھی ہوں،ان کا آستانہ بھی انسانی ،روحانی اورنفسیاتی امراض کا دواخانہ رہاہے۔ وہاں بھی ہر ضرورت مند آتا اوراپنا حصہ لے جاتا۔ اسلام آباد میں نسیم انوربیگ کاگھر آستانہ ہے جہاں سفیر،وزیر ،دانشور اورمشہور شخصیات آتی ہیں ۔موازنہ کیاجائے توبیگم سرفراز اقبال کا گھر دیگر ماڈرن آستانوں سے بدرجہاں بہتر تھا۔بیگم سرفراز اقبال آنے والوں سے یوں ملتیں جیسے ایک عرصے سے جانتی ہوں، نہ نام پوچھا اورنہ آنے کی وجہ پوچھی سب سے پہلے آنے والے کی تواضع کرتیں ۔بیگم سرفراز اقبال کااخلاق اورمہمان نوازی اسلام آباد جیسی بستی میں ایک مثال تھی ۔ان کے مہمان جوبھی زبان بولیں وہ جواب پنجابی میں دیتی تھیں ۔سادگی اورصفائی بیگم سرفراز اقبال کاحسن تھا۔
اسلام آباد میں ہی عالیہ کیانی کاگھر بھی ایک آستانہ ہے جہاں صرف سیاسی اورسوشل ورکروں کے علاوہ درخواست گزار آتے ہیں ۔عالیہ کیانی کے گھر آنے جانے کاکوئی وقت مقررنہیں ۔وہ سیاسی اورسوشل ورکروں کی تربیت کرتی ہیں اورلوگوں کی درخواستیں لے کردفتروں کے چکر لگاتی ہیں اوران کے کام کرتی ہیں۔ کام نہ ہونے پر مایوس نہیں ہوتی بلکہ حوصلے اورہمت سے کام لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں حضرت داتا گنج بخش کے اس قول پر یقین رکھتی ہوں کہ دروازے پر دستک دیتے رہو کبھی توکوئی باہر آکردیکھے گاکہ دستک دینے والاکون ہے۔ عالیہ کہتی ہیں کہ حکومت کاکام عوام کے مسائل حل کرنا ہے۔ وہ بیوروکریٹک رعونت اورسیاسی تکبر کے خلاف آواز اٹھانا عوام کا حق سمجھتی ہیں اورجی حضوری سے نفرت کرتی ہیں ۔
چکوال سے سرگودھا جاتے ہوئے راستے میں منارہ شریف آتا ہے جہاں مولانا اکرم اعوان کاآستانہ ہے جوہرخاص وعام کے لیے روحانی تسکین کاباعث ہے۔ آپ منارہ جائیں تووہاں چھوٹی بڑی گاڑیوں کابازار لگا ہوگا۔کچھ گاڑیوں کے پاس اسلحہ بردار گن مین اورڈرائیور کھڑے ہوں گے اورکچھ لوگ وظائف کرتے نظر آئیں گے۔ سیاست ،حکمت اورروحانیت درحقیقت اسلامی فلسفہ سیاست کے ہی اجزاءہیں مگر ہمارے سیاستدان ،آستانوںپر بیٹھے صاحبزادگان اورروحانیت کے دعویدارپیر الگ الگ شعبوں کے ترجمان اورمقلدین ہیں۔فیصل آباد کے علاقہ سالار والا میںحضرت پیر برکت علی لدھیانوی نے تقریباً نصف صدی قبل علم وعرفان،تزکیہ¿ نفس اورباطنی علوم کاجومرکز قائم کیااب وہ ایک تناوردرخت بن چکا ہے ۔ان کا فیض ،علم ،علمی اقتباسات اوراقوال زریں اب بھی لوگوں کے دلوں کومنورکررہے ہیںان کے چاہنے والوں کی تعداداب پاکستان سے نکل کربیرون ملک تک پہنچ چکی ہے۔یہاں تک تو میں نے آپ کوان لوگوں کے بارے میں بتارہا تھاجو بیوروکریٹ ،شاعر،ادیب ،صوفیاءکرام اوراین جی اوزسے تعلق رکھتے تھے۔
آپ کو بتاتا چلوںکہ سیاست کے میدان میں بھی کسی ولی اللہ سے کم نہ تھے بلکہ لاہور میں مولانا عبید اللہ انورتو خود ولی دوراں تھے۔شیرانوالہ دروازہ میںان کی مسجد قیام پاکستان سے لے کریاشاید اس سے بھی پہلے سے اب تک سیاست اور روحانیت کا مرکز رہی ہے۔ایک بارمیں جمعرات کے روز ان کے ہاں مجلس ذکرمیں شامل ہوا تو واپسی پر وہ بیس پچیس ساتھیوں کو لے کرایک قریبی دکان پہ گئے اورمٹھائیوں وغیرہ سے سب کی خدمت کی۔میرے نزدیک اگرچہ یہ ایک بڑی بات تھی مگر اتنی بھی قابل ذکر نہیںکہ اس کا تذکرہ کسی کالم میں کیاجائے۔حیران کردینے والی بات یہ تھی کہ مجھ سمیت انھوں نے مجلس ذکرمیں دیگر شہروں سے آئے ہوئے حاضرین کوان کی واپسی پر ایک ایک لفافہ تھمادیا،جو مجھے بھی ملا۔میں نے جانا کہ شاید اس میں کچھ وظائف نامہ ہو مگرمسجد سے نکل کر سڑک پر پہنچا تو تجسس کے ہاتھوں مجبورہوکرجب اسے کھولا تو اس میں پانچ روپے کا ایک نوٹ تھا۔ان دنوں گوجرانوالہ سے لاہورکاکرایہ گیارہ آنے ہواکرتا تھا۔
اس سے اگلے جمعرات جب مسجد شیرانوالہ پہنچا ،حضرت مولانا عبیداللہ انورکی خدمت میں حاضرہواتو معلوم ہوا کہ جولوگ دیگر کسی بھی شہر سے آتے ہیں،شہر کی مسافت کے لحاظ سے مولانا انھیں زاد راہ عنایت کرتے ہیں۔میاں محمود علی قصوری قانون اورسیاست کے شہسواروں میں سے تھے ماسوائے اس وقت کے جب وہ کچھ عرصہ پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر قانون رہے ان کی تمام عمرپیپلز پارٹی سمیت حکمرانوں کی مخالفت کرتے گزری۔لاہورہائی کورٹ کے نزدیک فین روڈپر ان کا بنگلہ ہمہ وقت ہر سیاسی جماعت کے کارکنوں اورانصاف کے متلاشی غرض مندوں سے بھرارہتا اورمزے کی بات یہ ہے ان کے دروازے سے کوئی بھی مایوس نہ لوٹا۔بڑے دبنگ آدمی تھے،بہت گرج دارآواز تھی ،سچائی اورعبادت ان کاخاصہ تھی۔سیاست کے میدان میں لاہور میں ہی گلبرگ میں چودھری ظہورالٰہی کی کوٹھی سیاسی کارکنوں ،انقلابی شاعروںادیبوںاوراکثر سیاسی جماعتوںکی قیادتوںکا ’آستانہ‘ بنی رہتیں۔بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتیں ہیں اوروقت بھی بڑامانگتے ہیں فی الحال اس باب کویہیں بند کرتا ہوں۔
افسوس ناک : گزشتہ دنوں تحریک استقلال اور ایم آر ڈی کے سابق سیکرٹری اطلاعات چودھری صفدر علی بندیشہ اس عالم رنگ وبو کو چھوڑ کر دار المکافات کو روانہ ہو گے ۔ ہمارے دوست جناب سعید آسی ان کی وفات پر اپنے گزشتہ کالم میں نوحہ لکھ چکے ہیں ۔ اللہ چودھری صاحب کی منزل آسان فرمائے !
روحانی اورسیاسی آستانے
Sep 16, 2023