زندہ درگور کرتی مہنگائی کا علاج

پاکستان میں افراط زر یعنی مہنگائی کا مسئلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے جس کی بنیادی وجہ جابرانہ استحصالی نظام ہے- قیام پاکستان کے بعد کلونیل سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کو جاری و ساری رکھا گیا جس کا بنیادی مقصد سامراجی اور مقامی سرمایہ داروں کے معاشی مفادات کا تحفظ تھا- آزاد مارکیٹ کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقامی سرمایہ داروں کو اپنی مرضی کے مطابق لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے دی گئی- فوڈ کی تقسیم کے نظام کو کمزور اور غیر منصفانہ رکھا گیا- پاکستان میں پیداوار پر پوری توجہ نہ دی گئی- پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے جس میں گروتھ کا پوٹینشل موجود ہے مگر منصوبہ بندی کے تحت زراعت کی پیداوار کو محدود رکھا گیا تاکہ پاکستان ضروری اشیاءکی پیداوار میں خود کفیل نہ ہو سکے اور بیرونی ملکوں کا محتاج رہے-
 کسی بھی ریاست کے لیے ترقی کا دروازہ تعلیم ہے مگر پاکستان میں سامراجی اور مقامی جاگیر دارانہ مفادات کے تحفظ کے لیے تعلیم کو کبھی ترجیح نہیں بنایا گیا تاکہ پاکستان کا سماج جاہل مقروض اور غریب رہے- تعلیم کے لیے بجٹ کو 2 فیصد سے کم رکھا گیا- قدرتی آفات سیلابوں اور زلزلوں نے بھی پاکستان کی گروتھ کو متاثر کیا- امریکہ پر غیر معمولی انحصار کیا گیا جس نے پاکستان کی معیشت کو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنسا دیا- پاکستان اگر جغرافیائی آزادی کے بعد سیاسی معاشی اور انتظامی آزادی حاصل کر لیتا تو آج پاکستان کے عوام کو زندہ درگور کرنے والی مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا- عوام آج کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے زندہ درگور ہو رہے ہیں-
 اس نوعیت کی معاشی صورتحال عوام نے پہلے کبھی نہیں دیکھی - موجودہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے جو ہماری ناکام داخلی اور خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے-المناک مہنگائی اندرونی استحکام اور سالمیت کے لیے سیکورٹی رسک بنتی جارہی ہے - پاکستان کا ریاستی نظام شفاف اور منصفانہ نہیں ہے- 
ہمارا نظام استحصالی ظالمانہ اور سنگدلانہ ہے- پاکستان کے بڑے سرمایہ دار اور جاگیر دار اب مافیاز کی شکل اختیار کر چکے ہیں- عدالتی نظام اگر آزاد اور مستحکم ہوتا تو مافیاز کو قانون کی گرفت میں لایا جاتا - شفاف یکساں اور کڑے احتسابی نظام کے ذریعے استحصال کرپشن اور چور بازاری کو روکا جاتا تو آج معاشی صورتحال اس قدر سنگین نہ ہوتی- پاکستان کے بڑے سرمایہ دار اور جاگیر دار سامراجی آشیر باد کے ساتھ ریاست اور مختلف اداروں پر قابض ہو چکے ہیں- کرپشن کا کلچر کینسر کی طرح اوپر سے نیچے تک پھیل چکا ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی سستی بجلی کی پیداوار کے لیے ڈیم تعمیر نہ کر سکے اور آئی پی پیز کے عوام دشمن شیطانی جال میں پھنس گئے- پاکستان میں بچت اور سرمایہ کاری نا ممکن بنا دی گئی ہے- 
پاکستان کی ریاست کے ترقی کے پوٹینشل کو کمزور رکھنے کے لیے دہشت گردی کو پروموٹ کیا گیا- ابادی میں اضافے کو بڑھنے دیا گیا تاکہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا مسئلہ درپیش رہے- ہیومن ریسورس پر توجہ دینے کی بجائے اور عوام کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کی بجائے مختلف امدادی سکیموں کے نام پر بھکاری بنا دیا گیا - پاکستان کی معیشت کو آزاد بنانے کی بجائے امریکی ڈالر کا مرہون منت بنا دیا گیا- قرضوں کی معیشت نے پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر مفلوج کر دیا ہے-
 سیاسی جمہوری نظام عوامی اور فلاحی کے بجائے اشرافیائی ہے جو خدمت کی بجائے تجارت بن چکا ہے-سٹیٹ بنک پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں رہا اور اسے آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ دیا گیا ہے- گورننس کا نظام اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ ہر سال 600 ارب کی بجلی چوری ہو جاتی ہے جس کا بوجھ بجلی کے بل ادا کرنے والے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے-
پاکستان مسلسل بجٹ کے خسارے کا شکار ملک ہے- ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے کام چلایا جا رہا ہے- حکمران اشرافیہ کی عیش وعشرت کا بوجھ عوام اٹھا رہے ہیں- زراعت اور پراپرٹی پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا- بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں تسلسل سے اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایے بڑھ جاتے ہیں اور اشیائے ضروریہ اور سروسز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے- 
پاکستان کی گروتھ اشیاءکی پیداوار اور سروسز کی فراہمی عوام کی ضرورتوں کے مطابق نہیں ہے- ہمارے طرز زندگی تجارت اور صنعت کا انحصار درآمدات سے منسلک ہو چکا ہے جبکہ ہم اپنی برآمدات میں اضافہ نہیں کر سکے- پاکستان کی کرنسی کمزور ہو چکی ہے- ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کرنےوالے مافیاز پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے- ناجائز منافع خوری اور منڈی کا ہیر پھیر جاری و ساری ہے- تاجروں اور صنعت کاروں کی عیاری نے مہنگائی میں اضافہ کیا ہے- اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے- حکومتیں دکھاوے کے لیے بجلی چوروں اور سمگلروں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کرتی ہیں مگر ان کے دیر پا اثرات مرتب نہیں ہوتے-
پاکستان کے عوام کو روز بروز بڑھتی ہوئی زندہ درگور کرنے والی مہنگائی کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ ہنگامی طور پر آئی پی پیز کو قومی تحویل میں لیا جائے - ذخیرہ اندوزوں سمگلروں اور کرپشن کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں- سرکاری ملازمین کی مفت بجلی گیس اور پٹرول کی سہولت ختم کی جائیں- وی آئی پی کلچر کو ختم کرکے سادگی اور کفایت شعاری کے اصول پر عمل کیا جائے -
 زراعت اور صنعت پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ پاکستان پیداوار میں خود کفیل ہو سکے - ابادی میں غیر معمولی اضافے کو روکنے کے لیے دو بچے خوشحال گھرانہ کی پالیسی اپنائی جائے- ہمسایہ ممالک سے تعلقات خوشگوار بنائے جائیں - وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا سائز کم کرکے اخراجات کم کیے جائیں - اربوں روپے سالانہ خسارے پر چلنے والی سرکاری کارپوریشنوں کی شفاف نجکاری کی جائے- بجلی تیل کی بجائے پانی ہوا اور سورج کی روشنی سے تیار کی جائے-انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کروائے جائیں اور سیاسی مافیاز سے جان چھڑائی جائے- حکومت ناجائز منافع خوروں اور عوام کا استحصال کرنے والوں سے آہنی ہاتھ سے نبٹے اور زیرو ٹالرنس کا عملی مظاہرہ کرے- بجلی کی لاگت کا بوجھ امیروں پر ڈالا جائے اور عوام سے ان کی آمدنیوں کے مطابق بجلی کے بل وصول کیے جائیں -
 پاکستان کے نوجوان تقسیم ہونے کی بجائے ایک عوامی اور انقلابی پلیٹ فارم پر متحد اور منظم ہوں تاکہ ریاست ریاستی ادارے اور مافیاز ان کے دباو¿ میں رہیں اور من مانیاں نہ کر سکیں-ائین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے تاکہ بااثر اور طاقت ور افراد قانون کی طاقت سے خوف زدہ رہیں اور عوام کا استحصال کرنے سے گریز کریں -
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...