فیصلہ متوقع تھا، فرق نہیں پڑتا،بلاول بھٹو: متنازعہ ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو مبارک ، اب بھگتیں ، رانا ثنا

لاہور (نامہ نگار) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زدراری نے کہا ہے کہ نئے اور پرانے نیب سے ہمیں فرق نہیں پڑتا، پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے نیب نئی چیز نہیں ہے۔ نیب آمر کا بنایا ہوا ادارہ ہے، اسے ختم ہونا چاہئے اوربلا امتیاز احتساب ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ سے یہی فیصلہ متوقع تھا۔ عمر عطا بندیال کی کارکردگی کا تاریخ فیصلہ کرے گی۔ نو مئی سے پہلے میری کوشش تھی کہ سیاسی طور پر الیکشن کی تاریخ کا حل نکالیں مگر اب نو مئی کے واقعات میں براہ راست ملوث کسی سیاست دان سے ڈائیلاگ نہیں ہو سکتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے غیر عسکری ونگ کے ساتھ ڈائیلاگ کے دروازے کھلے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز بلاول ہاو¿س لاہور میں پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے دو روزہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا موقف واضح رہا ہے کہ سب کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے لیے نیب کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ہم الیکشن کمیشن سے انتخابات کی تاریخ اور ایک سیاسی جماعت سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ سی ای سی میں تمام ارکان نے تمام تحفظات دور کرنے کے اختیارات آصف علی زرداری کو سونپ دیئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا دور بھی باقی ججوں جیسا رہا ہے، تاہم عمر عطا بندیال کی کارکردگی کا فیصلہ تاریخ طے کرے گی۔ سب کے خدشات کو آصف علی زرداری دیکھیں گے اور ان کے حل کا لائحہ عمل بنائیں گے۔ ہم اتحاد کے حوالے سے کسی حتمی فیصلہ پر نہیں پہنچے، حتمی حکمت عملی پر بھی ابھی نہیں پہنچے، الیکشن کی تاریخ آنے پر ہم اپنی حکمت عملی سامنے رکھیں گے۔ تاریخ کا اعلان ہو جائے تو اتحاد سمیت سب معاملات پر بات کریں گے۔ ہماری ساری حکمت عملی پاکستان پیپلز پارٹی کی سیٹوں کو بڑھانے پر ہو گی۔ افسوس کی بات ہے کہ کسی پارٹی کا کسی صوبے سے تعلق نہ ہو اور اس کی نمائندگی وہاں نہ ہو،یہ میاں نواز شریف سے سوال نہیں کیا جاتا کہ آپ سندھ یا کراچی کتنا وقت دیتے ہیں۔لاہور سے پیپلز پارٹی کا جنم ہوا ہے،یہ ہمارا گھر ہے۔ہمیشہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے اور مختلف جگہوں سے دور رکھا گیا۔2013میں بھی پیپلز پارٹی کو آر اوز کے زریعے دور رکھاپنجاب سے اور بعد میں بھی کوششیں کی گئیں۔ اس کے لئے سیاسی طور پر اور معاشی طور پر نوجوانوں کو انگیج کرنا ہوگا۔ہم نہ مظلوم ہیں نہ کسی مشکل میں ہیں،آگے کا لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے ضروری ہے لیول پلیئنگ فیلڈ سامنے ہو۔ایک سیاسی جماعت ہیں جو عوام سے نہیں چھپ رہی ہے۔جرت مندانہ طرز پر عوام میں جانے کے لیے تیار ہیں۔عوام نے مجھے ملک کے کم عمر ترین وزیر خارجہ کا موقع دیا۔ ٹی وی سکرینوں پر شکلیں دیکھ کر اندازہ لگا لیں عوام میں جانے سے کون مایوس ہیں۔ نو مئی سے پہلے میری کوشش تھی کہ سیاسی طور پر الیکشن کی تاریخ کا حل نکالیں،کاش وہ کوشش کامیاب ہوتی تمام سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کے لیے بہتر ہوتا، مگر تحریک انصاف کے کچھ لوگوں نے فیصلہ کیا انہوں نے جناح ہاو¿س اور آرمی تنصیبات پر حملہ کرنا ہے وہ معاملہ پھر بیچ میں ہی رہ گئے۔ ڈائیلاگ کے دروازے غیر عسکریت پسند جماعتوں کے لیے کھلے ہیں۔ قبل ازیں بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کے آغاز میں پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی طرف سے منظور کی گئی قراردادیں پڑھ کر سنائیں جس میں ملک کی معاشی صورتحال، اشیائے صرف کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں، بجلی کی مہنگائی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ سی ای سی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ آئین کے مطابق ملک میں انتخابات کی تاریخ اور شیڈول کا فوری اعلان کرے۔ سی ای سی نے پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں بنی لیکن اسے ایک سازش کے ذریعے پنجاب سے نکال دیا گیا۔ یہ سازش پہلی بار 2013 میں جنرل پاشا، چیف جسٹس چوہدری افتخار اور ایک سیاسی جماعت نے رچائی تھی۔ایک سیاسی جماعت کو اپنی حکومت کے دوران نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے باہر رکھا گیا تھا۔ پھر 2018 میں جنرل فیض حمید اور ثاقب نثار نے پی پی پی کو پنجاب سے باہر رکھنے اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کواقتدار میں لانے کی سازش کی۔ ہمیں نوجوانوں کو ملک کی سیاست اور معیشت میں شامل کرنا ہو گا۔ہم نے بی آئی ایس پی کے ذریعے خواتین کو حصہ دیا اور اسی طرح ہمیں نوجوانوں اور کسانوں کوشراکت دار بنانا ہے۔ ہم تیار ہیں اور بالکل مایوس نہیں ہیں۔الیکشن کے بارے میں ہمارا موقف سب کو معلوم ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جسٹس بندیال آخری جج تھے جنہیں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے بحال کیا گیا۔ اب تاریخ اپنا فیصلہ دے گی کہ عدلیہ کی تحریک سے ملک کو کوئی فائدہ ہوا یا نہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیرصدارت پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ آزاد کشمیر میں اتحادی حکومت کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی بجلی پر پہلا حق وہاں کے عوام کا ہے۔ پی پی کے وزراءآزاد کشمیر میں عوامیخدمت کو اپنا شعار بنائیں۔ وفاقی حکومت آزاد کشمیر میں آٹے پر سبسڈی دے اور کوٹہ بڑھائے۔ پی پی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل رائے شماری ہے۔  
بلاول
 لاہور ( نامہ نگار+خصوصی نامہ نگار +نوائے وقت رپورٹ) مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ قانون اپنی اسی ظالمانہ شکل میں بحال ہو گیا تو یہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو مبارک ہو، اب وہ اس کو بھگتیں گے اور آنے والے دنوں میں انہیں لگ پتا جائے گا، میرے خیال میں یہ مکافات عمل ہے۔لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثناللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے اس وقت کی جوڈیشل اور خالی اسٹیبلشمنٹ نے اس ملک میں ایک سازش کی اور ایک منتخب حکومت اور منتخب وزیراعظم کو نکالا گیا اور پاکستان کو ایک ایسے شخص کے سپرد کیا گیا جس نے اگلے ساڑھے تین چار سالوں میں ماسوائے انتقام کے کوئی کام نہیں کیا اور اس کا ایک ہی تکیہ کلام رہا کہ میں نہیں چھوڑوں گا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان خود کو صادق امین اور بقیہ سب کو چور سمجھتا تھا اور اس نے پاکستان کی سیاست کو اخلاقی طور پر بھی تباہ کیا، وہ ملک میں ایک ایسی نفرت لے کر آیا جس نے نوجوانوں کے ذہنوں میں ایسا بارود بھرا کہ اس نے پونے 4سال میں ملکی سیاست کو یہ رنگ دیا کہ ہم ایک ہی ملک کے رہنے، ایک گھر کے رہنے اور ایک ہی خاندان کے لوگ ایک دوسرے سے دست گریباں ہو گئے۔ان کا کہنا تھا کہ کہ کالے قانون کے نام سے مشہور نیب کے قانون کے بارے میں میرا کہنا تھا کہ اس کو ابھی رہنے دیں، ہم نے اسے بھگت لیا تو کسی اور کو بھی بھگتنے دیں لیکن اس وقت یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر ایک غلط چیز کا ہم نے سامنا کیا ہے تو کیا ہم اس میں صرف اس لیے ترمیم نہ کریں کہ کسی اور کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑے، اسی لیے اس میں ترمیم کی گئی۔سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ اب یہ قانون اپنی اسی ظالمانہ شکل میں بحال ہو گیا تو یہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو مبارک ہو، اب وہ اس کو بھگتیں گے اور آنے والے دنوں میں انہیں لگ پتا جائے گا، اب وہ 90 دن کا ریمانڈ کاٹیں، انہیں جو تھوک کے حساب سے ضمانتیں ملتی ہیں تو اب ہم دیکھیں گے کہ جب عدالتوں کے پاس ضمانت دینے کا اختیار ہی نہیں ہو گا تو پھر کوئی عدالت ان کو کیسے ضمانت دے گی، میری نظر میں تو یہ مکافات عمل ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف ہی صرف 13 کے قریب مقدمات ہیں، اب وہ ایک، ایک کر کے ان مقدمات اور انکوائریز کو بھگتیں، اب وہ یہ نہیں کیسے سکیں گے کہ یہ کالا قانون ہے یا اس کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدر نے مزید کہا کہ میاں نواز شریف کی قانونی ٹیم نے تمام تیاریاں کر لی ہیں اور وہ ایسی صورت میں واپس آئیں گے کہ ان کے پاس قانونی جواز ہو گا کہ وہ آ کر ایک آزاد شہری کے طور پر عدالت میں پیش ہو سکیں اور اپنی ضمانت کرا سکیں، ان تمام چیزوں کے انتظامات کے بعد ہی وہ تشریف لائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی اور سیاسی تباہی کا یہ عمل جو ابھی تک رک نہیں پایا، یہ عمل 28 جولائی 2017 سے شروع ہوا ، منتخب نمائندہ حکومت کو ایک عدالتی فیصلے سے باقاعدہ منظم سازش کر کے ملک کو غیرمستحکم کیا جو اس وقت کی جوڈیشل اسٹیبلشمنٹ نے کی تھی اور ایک منتخب وزیراعظم کو اس بات پر نکال دیا گیا کہ آپ نے اپنے بیٹے سے تنخواہ لی تو نہیں ہے لیکن لے سکتے تھے۔رانا ثنااللہ نے کہا کہ ان حالات میں جب عام پاکستانی مہنگائی، بے روزگاری، یوٹیلٹی بلز کے ہاتھوں مشکلات سے دوچار ہے، عام آدمی کی زندگی مشکل ہو چکی ہے اور پاکستان ڈیفالٹ سے بچ نکلا ہے لیکن معاشی بحران سے ابھی محفوظ نہیں ہو سکا تو ایسے میں میاں نواز شریف کی واپسی عام ا?دمی ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھ رہا ہے۔تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا خیرمقدم کیا ہے۔ ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ چیئرمین پی ٹی آئی کی نہیں‘ حق اور انصاف کی جیت ہے۔ پی ڈی ایم نے نیب کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا۔ شہباز شریف‘ حمزہ شہباز‘ مریم نواز‘ اسحاق ڈار‘ آصف علی زرداری کو ریلیف دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے خود ساختہ این آر او ٹو اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ مثالی ہے۔ سابق حکمرانوں نے اپنے کیسز ختم کروانے کے لئے پارلیمنٹ کی طاقت کا غلط استعمال کیا۔ امید ہے فیصلے کے خلاف نظر ثانی شدہ اپیلیں بھی مسترد ہوں گی۔ کروڑوں، اربوں روپے کی کرپشن کی فائلیں بندکی گئیں۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے بیان میں کہا ہے کہ بندیال صاحب کا آخری فیصلہ ان کے سیاست زدہ فیصلوں میں ایک اور اضافہ کر گیا۔ ہمارے جج صاحبان کو آئین شکن آمروں کے اقدامات ہمیشہ بہت عزیز رہے ہیں۔ پرویز مشرف کا بنایا گیا نیب آرڈیننس ججز کے نزدیک پارلیمنٹ کے قوانین سے کہیں زیادہ مقدس ہے۔ ”گڈ ٹو سی یو (آف) بندیال صاحب“۔ مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے لندن میں میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی اٹل ہے۔ کوئی کیس نواز شریف کی وطن واپسی میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ ہمارے خلاف کیسز میں دم ہوتا تو ہم خوفزدہ ہوتے۔ نواز شریف کی واپسی پر قانونی معاملات پر قانونی ٹیم غور کرے گی۔ چیف جسٹس نے آخری دن بھی چیئرمین پی ٹی آئی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ یہ فیصلہ خوش آئند ہے کیونکہ ہم اپنے خلاف کیسز سے بری ہو چکے ہیں۔ نیب قانون میں 90 دن کے ریمانڈ کی شق کو نہیں چھیڑا۔ لاڈلے کو سوٹ کرنے والی کسی شق کو چھیڑا ہی نہیں گیا۔ آج 16 ستمبر کو یوم نجات کے طور پر منائیں گے۔ یہ این آر او ہمارے مخالفین پر بجلی بن کر گرے گا۔ یہ فیصلہ مدر ان لا کیلئے نظریہ ضرورت کے تحت کیا گیا۔ بندیال نے چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھ کر ایک فاشسٹ پارٹی کے مفادات کا تحفظ کیا، یہ بات جے یوآئی کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفورحیدری نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کہا۔ انہوں نے کہا کہ سیاست کا بہت شوق ہے تو اب میدان میں آئیں۔ مولانا عبد الغفورحیدری نے کہا کہ جمہوریت کا خون کرنے والوں کے لئے ہمیشہ بندیال جیسے ججز نے سہولت کاری کی۔ بندیال کا آج کا فیصلہ تاریخ میں سیاہ فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ نیب ترمیمی بل پر فیصلہ پارلیمنٹ کی سپریمیسی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔کرسیوں پر بیٹھے افراد پروٹوکول اپنے منصب کا لیکن شوق سیاست کا رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنے آخری فیصلے میں بھی سپریم کورٹ کے وقار کو مجروح کیا۔ ترجمان جے یو آئی اسلم غوری نے کہا کہ چیف صاحب جاتے ہوئے آج کے فیصلے سے عدلیہ میں مزید دراڑ ڈالنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن