بنگلہ دیش میں ڈینگی بخار ریکارڈ سطح پر پھیل رہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مربوط کارروائیوں کے فقدان کے باعث مچھر سے پھیلنے والی یہ بیماری مزید اموات کا باعث بن رہی ہے۔عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں انتباہ کیا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سےمچھر سے پھیلنے والا ڈینگی ، زیکا ، چکن گونیا اور زرد بخار جیسے وائرس زیادہ تیزی اور وسعت سےپھیل رہے ہیں۔حکومت کی ڈائریکٹریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کے مطابق بنگلہ دیش میں اس سال اب تک 778 لوگ ہلاک اور ایک لاکھ 57 ہزارایک سو 72 افراد ڈینگی انفیکشن میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے نے کہا ہے کہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہے کیوں کہ بہت سے کیسز رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ اس سے قبل اموات کی سب سے زیادہ تعداد 2022 میں سامنے آئی تھی جب پورے سال کے دوران 281 لوگوں کی موت کی رپورٹ کی گئی تھی۔ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اس نے بنگلہ دیش میں ماہرین متعین کر دیے ہیں ، اور ادارہ مرض کی نگرانی سخت کرنے ، لیبارٹری کی صلاحیت میں اضافے اور متاثرہ کمیونیٹیز سے رابطے بڑھانے میں حکام کی مدد کررہا ہے ۔ڈینگی گرم مرطوب علاقوں میں عام ہے اور اس میں متاثرہ شخص کو تیز بخار، سر درد ، متلی ، قے ، پٹھوں میں درد ہوتا ہے اور انتہائی سنگین کیسز میں اندرونی طور پر خون بہنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں موت واقع ہوجاتی ہے۔ڈینگی کی چار قسمیں ہیں، جن میں سب سے زیادہ جان لیوا، ہیمرج ڈینگی ہے۔ تاہم، صرف شدید علامات والے مریض ہی اسپتالوں میں آتے ہیں، جہاں حکومت ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے۔ڈھاکہ میں سرکاری مگدا میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کے ڈائریکٹر محمد نیات الزمان نے جمعرات کو بتایا کہ بنگلہ دیش کو ڈینگی پر قابو پانے کے لیے اس لیےسخت جدو جہد کرانی پڑ رہی ہے کیونکہ یہاں کسی پائیدار پالیسی کا فقدان ہے اور بہت سے لوگوں کو یہ علم نہیں ہے کہ مرض کا علاج کس طرح کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ڈھاکہ سے باہر دوسرے بڑے شہروں میں نرسوں سمیت طبی عملوں کو ڈینگی کے کیسز سے نمٹنے کے لیے بہتر تربیت کی ضرورت ہے ان کا کہنا تھا کہ حکام کو ڈینگی کا مقابلہ کرنے کے لیے سٹی کارپوریشنز اور مقامی حکومت کو اپنے ساتھ شامل کرنا چاہیے اور محققین کو اس بارے میں ریسرچ کرنی چاہئے کہ مستقبل میں اس کے پھوٹ پڑنےکے واقعات کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے ۔ڈبلیو ایچ او کے الرٹ اور ریسپانس ڈائریکٹر عبدی محمود نے حال ہی میں ایک کانفرنس کو بتایا تھا کہ آب و ہوا کے بحران میں ایسی وبائیں سخت خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آب وہوا کی تبدیلی اور اس سال ال نینو سمیت مختلف عوامل موسمیاتی نمونوں میں تبدیلی سے خبردار کر رہے ہیں اور انہوں نے بنگلہ دیش اور جنوبی امریکہ سمیت متعدد خطوں میں ڈینگی کی سخت وباؤں کے پھوٹنے میں کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سب صحارا افریقہ کے ممالک ، مثلاً چاڈ نے حال ہی میں ڈینگی کے پھوٹنے کی رپورٹ دی ہے ۔ گزشتہ ہفتے گوائٹے مالا نے اپنے ہاں ڈینگی کے پھوٹنے پر نیشنل ہیلتھ ایمر جینسی کا اعلان کیا تھا۔
ڈھاکہ کےمتعدد رہائشی عہدہ داروں سے ناخوش ہیں۔ ڈھاکہ کے علاقے بسابو کے ایک رہائشی ذاکر حسین نے کہا کہ ، ہمارا مکان ایک ایسے علاقے میں ہیں جہاں ڈینگی کا خطرہ ہے ۔یہاں بہت زیادہ کچرا اور کوڑا کرکٹ ہے ۔ میں احتیاط کرتا ہوں اور مچھر دانی استعمال کرتا ہوں۔ اس کے باجود میری بیٹی ڈینگی کا شکار ہو چکی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ان کا کیا ہوگا جنہیں ڈینگی سے حفاظت کے طریقے معلوم نہیں ہیں۔ اگر شہر کی کارپوریشن یا وارڈ کمشنر مزید توجہ دیتا اور مچھر مار سپرے کرواتا تو ہم ڈینگی کے پھیلاؤ سےبچ سکتے تھے۔مون سون کے موسم میں بنگلہ دیش میں یہ مرض بار بار ہوتا ہے۔ تاہم، اس سال یہ وباخاص طور پر شدید رہی ہے، جس کے کیسز کی تعداد میں شہری اور دیہی علاقوں میں یکساں طور پر بہت بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے۔