پاکستان کی قومی کرنسی کی قدر میں حال ہی میں نمایاں بحالی دیکھنے کو ملی ہے جس میں 4 ستمبر کو آرمی چیف کی اعلیٰ کاروباری رہنماؤں سے ملاقات کے بعد انٹربینک میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تین فیصد اور اوپن مارکیٹ میں تقریباً 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جنرل عاصم منیر نے کاروباری برادری کو یقین دلایا کہ ریاست غیر ملکی کرنسی کے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی اور ان سے "ڈالر کے تبادلے اور انٹر بینک کی شرح میں شفافیت" کا وعدہ کیا۔سٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق ان کے دعووں کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن ہوا جس کے نتیجے میں انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں 10.25 روپے کا اضافہ ہوا جہاں یہ جمعہ کو 296.85 روپے پر بند ہوا اور اوپن مارکیٹ میں 32 روپے اضافے کے ساتھ 297 روپے تک پہنچ گیا۔ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی اے پی) کے چیئرمین ملک بوستان نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم نے ملک کے اعلیٰ فوجی افسران سے ذخیرہ اندوزوں اور غیر قانونی کرنسی کی تجارت میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست کی تھی۔"انہوں نے ذکر کیا کہ چور بازاری کے تاجر اتنے بے باک ہو چکے تھے کہ وہ ممکنہ صارفین کو آفیشل ایکسچینج کمپنیوں کی طرف راغب اور مارکیٹ میں موجود نرخوں سے زیادہ قیمتیں پیش کر رہے تھے۔انہوں نے کہا، "ہم اپنے 90 فیصد سے زائد صارفین سے محروم ہو گئے تھے۔" انہوں نے مزید کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں اور گرفتاریوں کے بعد سپلائی بحال کر دی گئی ہے۔انہوں نے بات کو جاری رکھا۔ "ہماری تجارت $5 ملین سے بڑھ کر $15 ملین یومیہ ہوگئی ہے۔ اور یہ مجرموں کے خلاف فوج کی کوششوں کی وجہ سے ہوا ہے۔"ای سی اے پی کے سربراہ نے کرنسی کی غیر قانونی تجارت میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی جاری رکھنے پر زور دیا۔پاکستانی معاشی ماہرین نے بھی کریک ڈاؤن کے مثبت نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کرنسی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مدد ملی۔لاہور سے تعلق رکھنے والے ماہرِ معاشیات اکرام الحق نے کہا کہ "ڈنڈا چلانے سے کچھ مثبت نتائج پیدا ہوئے ہیں۔"تاہم انہوں نے مزید کہا کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ پاکستانی روپے کے طویل مدتی استحکام کا باعث بنے گا۔انہوں نے کہا، "انتظامی اقدامات نے ڈالر کے غیر قانونی اخراج، ذخیرہ اندوزی، قیاس آرائی پر مبنی لین دین اور اسمگلنگ سے متعلق خامیاں پر قابو پایا ہے جو ضابطے اور سرحدی کنٹرول کے ساتھ کمزور نگرانی کی وجہ سے تھیں۔"پاکستانی حکام نے ماضی میں کرنسی مارکیٹ کو مصنوعی طور پر مستحکم کرنے کے لیے متعدد بار کریک ڈاؤن کا سہارا لیا حالانکہ ان کی وجہ سے روپے کی قدر میں زبردست کمی واقع ہوئی۔سابق وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے ماضی قریب میں امریکی ڈالر کو 200 روپے پر واپس لانے کی امید پر ایسا ہی طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ایسا ممکن نہ ہوا اور جنوری 2023 میں اس کی قدر میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔حق نے مزید کہا، "حالیہ کریک ڈاؤن کا بھی یہی انجام ہو سکتا ہے اگر اس کے ساتھ کرنسی کی فراہمی کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس اور مستقل کوششیں نہ کی گئیں جو کہ موجودہ بحران کی بنیادی وجہ ہے۔"انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر ملک نیٹ غیر ملکی اثاثہ جات (این ایف اے) اور نیٹ ملکی اثاثہ جات (این ڈی اے) کے تناسب کو بہتر بنانے میں ناکام رہا تو روپے کی قدر میں کمی کے ایک اور مرحلے سے گذرنا پڑ سکتا ہے جس سے موجودہ کریک ڈاؤن بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ایک اور معاشی ماہر اور ایک بروکریج فرم چیز سیکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی نواز نے زور دیا کہ برآمدات میں اضافے، ترسیلاتِ زر اور سرمایہ کاری کو راغب کرکے کرنسی کی قدر میں کمی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ "ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو قابو میں رکھیں اور لوگوں کے لیے مزید ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے معاشی سرگرمیاں پیدا کریں۔ یہ سب کر کے ہم مہنگائی کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور عوام اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔"