پیارے نبی ؐ سے محبت کا تقاضا آپؐ کی سیرت طیبہ پر عمل میں ہے

عیشہ پیرزادہ 
Eishapirzada1@hotmail.com 
 اللہ تعالیٰ نے مقصود کائنات فخر موجودات امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیؐ کو پوری کائنات انسانی اور تمام جہانوں کیلئے رحمت للعالمینؐ اور خاتم النبینؐ بنا کر مبعوث فرمایا،حضور نبی کریمؐ انسانیت کیلئے تاقیامت رحمت بن کر آئے،آپؐ ہادیوں کے ہادی،خاتم النبینؐ،ساری کائنات کے سردار،مقصود کونین تھے،شاعر نے کیا خوب کہا کہ 

حضورؐآئے تو سرِ آفرینش پا گئی دنیا
اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آگئی دنیا
خاتم الانبیاء کے ولادت کا مہینہ ہے اور کل تمام مسلمان 12 ربیع الاول کا دن عقیدت و احترام سے منانے جا رہے ہیں۔ اس موقع پر نوائے وقت نے سیرت طیبہ پر چیئرمین رویت ہلال کمیٹی اور خطیب بادشاہی مسجد مولانا عبدالخبیر آزاد سے سیر حاصل گفتگو کی ہے جو نذر قارئین ہے۔ 
نوائے وقت: مقصد بعث محمدیؐ کیا ہے؟
  مولانا عبدالخبیر آزاد:بعث محمدی ایسے وقت میں ہوئی کہ انسانیت پر نزع کا عالم طاری تھا،دنیا اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ ہلاکت کے مہیب عمیق غار میں گرنے والی تھی،عین وقت پر خالق کائنات نے وحی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا،کہ اس جاں بلب انسانیت کو نئی زندگی بخشی اور لوگوں کو تاریکیوںسے نکال کر روشنی کی طرف لائے،آپؐ نے انسانیت کو صرف ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دی اور دنیا کی ساری بندگی اور غلامیوں سے نجات دلا دی،زندگی کی ساری حقیقی نعمتیں جن سے انسانوں نے اپنے آپ کو محروم کر دیا تھا دوبارہ ان کو عطا کیں اور وہ طوق وسلاسل ان سے جدا کیے جو انھوں نے بلاضرورت اپنے اوپر ڈال لیے تھے،حضور نبی کریمؐ کی بعثت نے انسانیت کو نئی زندگی،نئی روشنی،نئی طاقت،نئی حرارت،نیا ایمان،نیا یقین،نئی نسل،نیا تمدن اور نیا معاشرہ عطاء فرمایا،آپؐ کی آمد سے دنیا کی نئی تاریخ اور انسانیت کے کام کی عمر شروع ہوئی۔
سوال: ماہ ربیع الاوّل کس طرح گزارنا چاہیے؟ حب رسول ؐ کا تقاضہ کیا ہے؟
 مولانا عبدالخبیر آزاد: ماہ ربیع الاوّل آتے ہی ہر جگہ سیرت النبیؐ کی محافل، مجالس اور نعت و کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں،میلاد النبیؐ کے جلوس نکالے جاتے ہیں،ہر جگہ محسن انسانیت کا ذکر خیر ہوتا ہے،مگر افسوس اْس کے بعد خاموشی ہو جاتی ہے،پھر سارا سال تقریباًمسلمان بھول جاتے ہیں،ماہ ربیع الاوّل میں بہت سی رسومات غیر شرعیہ منائی جاتی ہیں،کاش ہم محسن انسانیت کی سیرت طیبہ ؐ پر عمل کرتے ہوئے رسومات کو چھوڑتے اور سال بھر اپنی چوبیس گھنٹے کی زندگی میں حضور نبی کریمؐ کی تعلیمات پر عمل کرتے تو یہ ہمارے لئے دونوںجہانوںکی کامیابی کا ذریعہ بنتا،دنیا کی تمام مشکلات و مسائل کا حل رجوع الی اللہ اور سیرت النبی ؐکی پیروی میں ہے۔
سوال: ختم نبوتؐ پر ایمان کتنا اہم ہے؟
مولانا عبدالخبیر آزاد: تمام اْمت کا اس پر اجماع ہے اور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں،کہ آپ کے بعد نہ کسی قسم کا کوئی نبی ہوگا اور نہ کسی قسم کا کوئی رسول،اس پر بھی اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل کو ئی تخصیص نہیں،پس اس کا منکر اجماع اْمہ کا منکر ہے،کوئی شخص دنیا میں ختم الرسلؐ کی سیرت بیان کرنے کا حق ادا نہیں کر سکتا،جو شخص جتنے مرضی دعوے کرے کہ میں ختم الرسل ؐکی سیرت بیان کروں گا،میں ختم الرسلؐ کے معجزات بیان کروں گا،میں ختم الرسلؐ کے کمالات کا احاطہ کروں لیکن حقیقت یہ ہے ختم الرسلؐ کے جتنے کمالات و محاسن ہیں ختم الرسلؐ کی جتنی عظمتیں اور رفعتیں ہیں،ان تک دنیا کے کسی انسان کی رسائی نہیں ہو سکتی،اسکو دیکھ کر مولانا مناظر احسن گیلانی نے کہا کہ یوں آنے کو تو سب آئے لیکن جو بھی آیا وہ جانے کیلئے آیا لیکن مکہ میں ایک ایسا محمد  عربی آیا جو صرف آنے کیلئے ہی آیا،وہ آیا تو آتا چلاگیا،وہ بڑھا تو بڑھتا ہی چلاگیا،وہ پھیلا تو پھیلتا ہی چلاگیا،وہ چڑھا تو چڑھتا ہی چلاگیا،یہ میرے نبیؐ کی شان ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے و رفعنالک ذکرک۔اے پیغمبر ہم نے تیرے ذکر کو اونچا کردیا،اے اللہ تو نے کیسے ذکر کو اونچا کیا،اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں خدا کا ذکر ہو وہاں محمد مصطفی کا ذکر ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو پورے جہانوں کیلئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔
سوال: رسول اللہ ؐ نے خواتین کے کیا حقوق متعین کیے؟
مولانا عبدالخبیر آزاد: محسن انسانیت کے دنیا میں تشریف لانے کے بعدعورت کا مقام ومرتبہ بلند ہوا،آپ ؐ نے عورت کو چار حیثیتیں دے دیں،میرے رسول ؐ نے فرمایا (۱)عورت اگر تیری بیٹی ہے تو تیری عزت ہے،(2) عورت تیری بہن ہے توتیری آبرو ہے،(3) عورت اگر تیری بیوی ہے تو اس کا خرچہ تیرے ذمہ واجب ہے،(4) اور عورت اگر ماں ہے تو اسکے قدموں کے نیچے جنت ہے۔
سوال: فلسطین میں اسرائیلی بربریت کے آگے امت محمدیؐکا اتحاد کہاں ہے؟ امت کا اتحاد کتنا اہم ہے؟
مولانا عبدالخبیر آزاد: غزہ میں 40 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں،جس کے بعد دنیا کے سامنے یہ صیہونی ذہنیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔یہ سرزمین انبیاء ہے اور اس کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہر سطح پر کچھ نہ کچھ کیا جارہا ہے لیکن اس سے آگے مزید بھی کرنے کی ضرورت ہے۔جیسے آج مغربی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اسی طرح مسلم ممالک بھی فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوں۔پوری امت متحد ہو جائے اورفلسطینیوں کا ساتھ دے۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو جو آج فلسطین میں ہورہا ہے ہوسکتا ہے کل وہ کسی اور کے ساتھ ہو۔فلسطین پر ہونے والے ظلم کو دنیا دیکھ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی عدالت نے اسرائیلی وزیر اعظم کو دہشت گرد ڈیکلیئر کیا ہے۔ اب غیر مسلم بھی غزہ کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں کہ وہاں جو ہو رہا ہے وہ بہت ظلم ہے۔

ای پیپر دی نیشن