نیلی آنکھوں والی گوری

دریائے تھیمز کے کنارے آہستہ آہستہ چہل قدمی کررہا تھا۔خون جما دینے والی سردی تھی، تیز ہوا جسم کو چیرتے ہوئے جیسے خون کو جما رہی تھی۔ میرے اردگرد بہت سے گورے جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جسم سے جسم ملائے دنیا سے بے خبر اپنی دنیا میں گم تھے۔میں لندن آئی سے لندن بریج کی طرف جا رہا تھااور مجھے راستے میں بہت سے اپنے دیسی لوگ بھی نظر آرہے تھے۔کچھ تو تصویریں بنانے میں مصروف تھے اور کچھ حسرت بھری نظروں سے گوروں اور گوریوں کو دیکھ رہے تھے۔ایسے میں پیچھے سے ایک نسوانی آواز آئی ہیلو !میں نے ایک لمحے کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک دراز قد تیکھے نین نقش چہرے پر مسکراہٹ جیسے کوئی پریوں کے دیس سے ہو میں تو ایک لمحے کے لئے ساکت اوربس اْس کو دیکھتا ہی جا رہا تھا۔ اگلے لمحے اْس  نے کہا میں زنایہ ہوں کافی دیر سے قحبہ خانے کے شیشے سے آپ کو دیکھ رہی ہوں۔آپ اتنی سردی میں باہر اس طرح کیوں کھڑے ہیں یا تو آپ پریشان ہیں یا آپ کسی کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ اگر آپ کے پاس وقت تو ہم اکھٹے کافی پی سکتے ہیں اور گپ شپ بھی ہوجائے گی۔میں نے مسکراتے ہوئے اپنی رضامندی ظاہر کی۔ہم اندر جا کر شیشے کے ساتھ والی میز پر بیٹھ گئے۔اس نے بلاتوقف بات کو بڑھاتے ہوئے کہا میرا تعلق روس سے ہے اور میں جرنلسٹ ہوں۔ آج کل انگلینڈ میں ہی رہ رہی ہوں۔
اب تعارف کروانے کی باری میری تھی۔میرا تعلق دنیا کے ایک خوبصورت ترین ملک پاکستان سے ہے اور آپ کو سن کر شاید حیرانی ہو کہ میں بھی ایک جرنلسٹ ہوں۔میرا تعارف سن کر وہ بہت خوش ہوئی اور حیرت زدہ بھی کہ ہم کس طرح سے یہاں مل گئے۔ میں نے اپنے لئے کافی کا آرڈر دیا اور اْس نے اپنے لئے بلیک کافی اور کچھ سنیکس۔اْ س کا اگلا سوال تھا کہ آپ کے ملک میں سیاسی ا ستحکام کیوں نہیں ہے اور فوج سیاست میں اتنی مداخلت کیوں کرتی ہے۔ دوسری طرف آپ کا حریف انڈیا ہے جس میں جمہوریت دن بدن مضبوط ہو رہی ہے اور انڈیا دنیا کی بڑی معیشت والے ملکوں میں شامل ہو رہا ہے۔ آپ کا ملک آج بھی آئی ایم ایف سے قرض لیکر ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔زنایہ کے اِن سوالوں نے مجھے پریشان کر دیا اور میں ایک لمحے کے لئے سکتے میں آگیا۔ میرا اْس کو کہنا تھا کہ پوری دنیا میں پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت کی طاقت ہونے کا اعزاز رکھتا ہے اور یہ اعزازدنیا اتنے سالوں میں بھی ہضم نہیں کر پائی۔ایک وقت تھا جب پاکستان ایشیاء میں سب سے زیادہ ترقی کے زینے پار کرتا ہوا ایشیاء ٹائیگر بننے جا رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو اپنی طاقت کا مظاہرہ دکھا کر شاک دیا اْس کے بعد پاکستان پوری دنیا کی آنکھ میں چبھنا شروع ہو گیا۔اس ملک کے اندر دنیا کی خفیہ ایجنسیوں نے ملک کو کمزور کرنا شروع کر دیا جس میں آپ کے ملک کی ایجنسی بھی سرِ فہرست تھی جو انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان کو کمزور رہی تھی۔آئے روز بم دھماکوں نے جہاں پاکستان کی معیشت کو تباہ وبرباد کر دیا وہاں پاکستان کو بہت سا جانی نقصان بھی اْٹھانا پڑا۔ میری باتیں سن کر اس کا رنگ پھیکا پڑگیا جیسے اْس کو بہت افسوس ہو رہا ہوکہ پاکستان کا جو مسخ شدہ چہرہ دنیا کو دکھایا جا رہا ہے وہ اصل میں اتنا گھنائونا نہیں ہے۔ نائین الیون کے واقعہ کے بعد پرامن پاکستان جنگی میدان میں بدل گیا۔ ہر طرف دہشت گردی نے ڈیرے ڈال لئے، آئے روز بم دھماکوں کے خوفناک واقعات نے نے پاکستان کے نام پر جان لیوا ملک کا ٹھپہ لگا دیا۔ کاروباری لوگوں نے ملک سے بھاگنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔نتیجتاً تمام کاروبار ٹھپ ہو گئے اور پاکستان کی معیشت کمزور سے کمزور تر ہونا شروع ہوگئی۔
اب رہ گئی بات فوج کی، پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں کیا جاتا ہے۔ ہر ملک کی اسٹبلشمنٹ کو آپ دیکھ لیں آپ کو کہیں نہ کہیں اْن کا وہاں کی سیاست میں کردا ر ضرور نظر آئے گا۔ اس وقت ملک میں جمہوریت قائم ہے پاکستان کی تاریخ میں چوتھی بار جمہوری حکومت آئی ہے چاہے کمزور ہی سہی لیکن اب ملک میں مارشل لا آنا مشکل ہو گیا ہے۔جو کہ پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہی سہی۔آج کا آرمی چیف جنرل عاصم منیر جمہوریت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں زنایہ کے چہرے کی رنگت تبدیل کر رہے تھے جیسے وہ حیران ہو رہی ہو کہ پاکستان کا چہرہ دنیا کو اتنا خطرناک کیوں دکھایا جا رہا ہے۔ پھر اْس کے منہ سے ایک ہی جملہ نکل سکا کہ آپ کا مطلب ہے پاکستان کو دنیا کی ایجنسیوں نے کمزور کیا ہے جس میں بہت سا کردارہمسائیہ ملک انڈیا نے ادا کیا۔ 
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔آپ اس وقت انگلینڈ میں کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں آپ کو وہاں پاکستانی ڈاکٹر لازمی ملیں گے جو پاکستان سے ہی تعلیم حاصل کرکے پوری دنیا میں اپنے ملک کے لئے فخر کا باعث ہیں۔ یہ ساری باتیں سن کر وہ بہت حیران سی ہو رہی تھی۔ باہر اندھیرا ہو رہا تھا اور سردی کی شدت بھی بڑ ھ رہی تھی۔لیکن ہم دونوں  باتوں میں ایسا گم ہوئے کہ وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میں نے اپنے لئے دوبارہ کافی کا آرڈر دیا اور دوسری طرف زنایہ نے اپنے لئے ایک جام کا آرڈر۔ بس میں کافی کا کپ پکڑ کر دریائے تھیمز پراگلی ملاقات کا وعدہ کرکے نکل پڑا لیکن اْس کی نیلی آنکھیں مجھے بار بار سوچنے پر مجبور کر رہی تھی جن میں پاکستان کے لئے دکھ اور افسوس محسوس ہو رہا تھا۔ بس دِل سے یہ ہی آواز نکلی کہ نیلی آنکھوں والی گوری نے آج مجھے پھر بہت اْداس کردیا۔پاکستان کی یاد مجھے بے چین کر رہی تھی اْسی لمحے آنکھیں نم ہو گئیں اور دِل سے نکلا میرا پاکستان زندہ باد!

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...