سیرت نبویؐ پر عمل کرنا ضروری ہے

Sep 16, 2024

عتیق انور راجا

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتے ہی دنیا اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ میلاد کی محافل اور کانفرنسسز منعقد کی جاتی ہیں۔ایسی ہی ایک روح پرور سہ روزہ سیرت النبی ﷺ کانفرنس کا اہتمام چلڈر ن لائبریری کمپلیکس لاہورکیا گیا۔احمد خاور شہزاد منیجنگ ڈائریکٹر چلڈر ن لائبریری کمپلیکس کی کوششوں سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں ایک طرف ملک کے جید علما نے سیرت نبوی پر گفتگو کی تو دوسری طرف سو سے زائد سکولوں کے بچوں کو اس کانفرنس میں شریک کیا گیا۔ بچوں کے درمیان نعت، فن خطاتی ، سیرت کوئز اور سیرت النبی ﷺ پر مضمون نویسی کا مقابلہ کروایا گیا۔
سیرت کانفرنس کے دوسرے روز میلاد النبی ﷺ کی بھرپور محفل سجائی گئی ،جس میں گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولز کی بچیوں نے بھرپور شرکت کی اور درود و سلام کے نذرانے پیش کیے۔سیرت کانفرنس کے آخری روز سیرت سیمینار کروایا گیاجس کی صدارت جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الحق صاحب ڈائریکٹر جنرل، ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد نے کی- اس کانفرنس کے مہمان خصوصی رانا سکندر صاحب وزیر تعلیم پنجاب تھے ۔ ان کے علاوہ مہمانِ اعزاز میں جناب ڈاکٹر شہنشاہ فیصل عظیم،سیکرٹری ثقافت و تعلقات عامہ پنجاب شامل تھے۔
سیرت نبویؐ ؐ نہ صرف مسلمانوں بلکہ اقوام عالم کے لیے نمونہ ہے کہ آپؐ کے وَالد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے قبل ہی بحالتِ سفر مدینہ منورَہ میں ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے کی اورسیدہ حلیمہ سعدیہؓ نے دودھ پلایا۔ پھر آپ ؐکی عمر مبارک6 سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ آپؐکو مدینہ آپ ؐکے ننہال لے گئیں۔ 
واپسی میں بمقامِ ابوا اْن کا انتقال ہوا اور آپؐ کی پرورش اْمّ ایمن کے سپرد ہوئی۔ 8 سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اْٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپؐ کے چچا ابو طالب نے لیا۔ 9سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور25سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے 2ماہ بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔
 35 سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرکعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے۔حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے اْلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا جس پر سبھی خوش ہوگئے۔ آپ ؐ یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا مگر آپؐ بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے بلکہ عقل و فہم میں ایک مثال تھے۔ یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ ؐ کو صادق و امین کا خطاب دیا۔ 
بچپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں مگر بعد میں آپؐکو خلوت پسند آئی چنانچہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ حضورِ اکرم ؐکی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو مینارِ ہدایت ہے،اگرچہ آپؐکا دور نبوت چالیس سال کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن آپ کے بچپن اور جوانی کے شب و روز میں بھی ہدایت موجود ہے۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاواور دلچسپی تھی کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریشِ مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لا رہے ہیں۔معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔ صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے ۔ جب آپؐ کی عمر چالیس ہوئی تواللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل علیہ السلام سورۃ اقراء کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے۔
شروع میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرمایا۔ دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں مدینہ میں اسلام کی روشنی پھیل چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہجرتِ مدینہ کا حکم ہوا۔ قریش کو پتہ چلا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے گھیرے سے باطمینان نکلے ،حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، وہاں 3 دن رہے، پھر مدینہ کی نواحی بستی قُباپہنچے۔ یہاں سے اِسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ قبا میں 14 دن قیام رہا۔وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے اور حضرت ابو ایوب اَنصارِی رَضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا۔ مسجد نبویؐ کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و جہاد کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعتیں بھیجنا شروع کیں۔اور پھر اسلام کی پہلی ریاست مدینہ قائم ہوئی۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرت نبوی ؐ پڑھائی،سمجھائی جائے اور علما کرام لوگوں کو یہ نقطہ بتائیں کہ سیرت نبویؐ پر عمل کرنے سے ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کا حصول ممکن ہو سکتا ہے
٭…٭…٭

مزیدخبریں