شنگھائی تعاون تنظیم سے منسلک پاکستان کے مفادات

اکتوبر کے وسط میں پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم( ایس سی او) کی کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ (سی ایچ جی) کے اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل کرنا ہے جو پاکستان کے لیے بلا شبہ ایک اعزاز ہے۔ یہ کونسل ایس سی او میںفیصلہ سازی کا اعلیٰ ترین فورم ہے جس کا اجلاس سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے۔اِ س اجلاس میں ایس سی او کے ممبر ممالک کے حکومتی سربراہان کو مدعو کیا گیا ہے اوراِس ضمن میں پاکستان کو رْکن ممالک کے سربراہان یا اْن کے اعلی سطحی نمائندں کی شرکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اِس تاریخی موقع پر یہ ضروری ہے کہ ہم ایس سی او کے قیام اور خطے میں اِس کے مقاصد کا جائزہ لیں اور ایک رْکن کی حیثیت سے اِس تنظیم سے سیاسی اور اقتصادی فوائد کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے مناسب حکمت ِ عملی وضع کریں۔
ایس سی او ایک علاقائی سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تنظیم ہے جسے چین اور روس نے 2001 میں قائم کیا تھا۔ ابتداء میں عوامی جمہوریہ چین، قازقستان، کرغزستان، روس ،اْزبکستان اور تاجکستان ایس سی او کے رْکن ممالک تھے۔ بھارت اور پاکستان نے 2017 میں ، ایران 2023 میں اور بیلاروس نے جولائی 2024 میں اِس تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور یوں ایس سی اوکے مستقل ارکا ن کی تعداد 10 ہو چکی ہے۔ اِس کے علاوہ 3 ممالک آبزرور ارکان اور 14ممالک ڈائیلاگ پارٹنرز کے طور پر ایس سی او سے منسلک ہیں۔ ایس سی او جغرافیائی اعتبار سے دْنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے جو دْنیا کے تقریباً 80 فیصد رقبے پر محیط ہے۔
 2023  کے اعداد و شمار کے مطابق دْنیا کی 40 فیصد آبادی پر مشتمل ایس سی او ممالک کی مشترکہ جی ڈی پی دْنیا کی جی ڈی پی کا تقریباً 32 فیصدہے۔ ایس سی او کا انتظام ایچ ایس سی کے ذریعے کیا جاتا ہے جو ایس سی او کا فیصلہ ساز ادارہ ہے۔ بحیثیت تنظیم ایس سی او کے چار اہداف طے ہیں جن میں:
 1) رْکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد، دوستی اور اچھی ہمسائیگی کو مضبوط کرنا۔
  2)رکن ممالک کے درمیان سیاست، تجارت، معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی، ثقافت، تعلیم، توانائی، ٹرانسپورٹ، سیاحت، ماحولیاتی تحفظ وغیرہ جیسے شعبوں میں موثر تعاون کی حوصلہ افزائی کرنا۔
   3) خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کو مشترکہ طور پر یقینی بنانے اور برقرار رکھنے کے لیے کوشش کرنا اور 
4)  جمہوری، منصفانہ سیاسی اور اقتصادی نظم کو فروغ دینا شامل ہیں۔
 ایس سی او کے سربراہی اجلاس سے قبل گذشتہ ہفتے پاکستان نیایس سی او کے تجارت اور اقتصادی اْمور کے وزرا ء کے 23ویں اجلاس کی میزبانی بھی کی۔وزراء اجلاس میں امن اور خوشحالی کے فروغ کے لیے ایس سی او کے مقاصد کے حصول کے لئے عزم کا اعادہ کیا گیا اور خطے کو درپیشعالمی اقتصادی چیلنجزکے لئے ایس سی او کے کردار کو سراہا گیا۔ وزراء کانفرنس میں مضبوط شراکت داری قائم کرنے، علاقائی تعاون کو بڑھانے اورخطے کے لوگوں کے لیے ایک روشن اور خوشحال مستقبل کی راہ ہموار کرنے پر بھی زور دیا گیا۔ ایس سی او کے وزراء نے رْکن ممالک کے درمیان اقتصادی ترقی اور تجارتی تعاون کو گہرا کرنے کے امکانات اور اقدامات پر تجاویز کا تبادلہ کیا۔اجلاس میں ایس سی اوکی ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشنز (TPOs) کے درمیان  بامعنی تعاون اور وسیع تر تجارتی انضمام سے متعلق پاکستانی تجویز ، خطے کے لیے اقتصادی ترجیحاتکا ڈیٹا بیس بنانے اور ترغیبات اور ترجیحات کے بارے میں معلومات تک رسائی سے متعلق قازقستان کی تجویز اور جدت پر مبنی اقتصادی ترقی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے خطے میں معیشت کے فروغ سے متعلق روسی تجویز کی منظوری دی۔وزراء اجلاس کو اگلے ماہ منعقد ہونے والے سر براہ اجلا س کی پیش بند ی بھی کہا جا سکتا ہے۔
اکتوبر کا سر براہی اجلاس ایس سی او کے مستقبل کے اقدامات اور رْکن ممالک کے درمیان علاقائی تعاون کے فروغ کی تجاویز پر مشتمل ہے۔  پاکستان اِس سے قبل ایس سی او کے فورم پر فوڈ سکیورٹی ،  موسمیاتی تبدیلی اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اِسکے علاوہ پاکستان ایس سی او کے اندر تعاون کے دائرہ کار کو وسعت دینے، مشترکہ سرحدی آپریشنز ، سائبر تعاون میں اضافہ، ڈیجیٹل رابطے، غربت کے خاتمے اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے جیسے اْمورپر زور دیتا رہا ہے۔
پاکستان کے لئے ایس سی او کا پلیٹ فارم بہت اہم ہے۔ چند اہم پہلو ہیں جہاں پاکستان ایس سی او کی مدد سے اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔
 1) علاقائی سکیورٹی اور استحکام میںرْکن ممالک کا تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
 2) ایس سی او کے رْکن ممالک ایک بڑا اقتصادی بلاک ہیں جن کے ساتھ تجارت پاکستان کی معیشت کے لیے ایک اہم موقع ہو سکتا ہے۔
 3) سی پیک اور بی آرآئی کے پلیٹ فارم کے ذریعے دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی رابطے ہو سکتے ہیں۔
 4) ایس سی او کے رکن ممالک توانائی کی دولت سے مالامال ہیں اور پاکستان توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اَن ممالک سیا?سان شرائط پر معاہدے کر سکتا ہے۔
 5)  ایس سی او کے ذریعے پاکستان کو رْکن ممالک کے ساتھ ثقافتی، تعلیمی، اور سائنسی تعاون کے مواقع حاصل ہیں۔
 6)  ایس سی او میں شمولیت سے پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے اور خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے۔
7)  ایس سی او ایک علاقائی تنظیم ہے جو مختلف بین الاقوامی مسائل  کے سلسلے میں ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ پاکستان دیگر رْکن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر سکتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر مشترکہ مسائل پر تعاون حاصل کر سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے ایس سی او کی رْکنیت اہم ہے لیکنیہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے ایس سی او کا مینڈیٹ مکمل اتفاق ِ رائے کے اْصول پر قائم ہے اور دوطرفہ مسائل اِس تنظیم کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ اِس کی روشنی میں کوئی بھی مسئلہ مکمل اتفاقِ رائے کے بغیر حل نہیں ہو سکتا۔ اگر چہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سائیڈ لائنز پر ان دو طرفہ مسائل پر بات کی جا سکتییا اعتماد سازی کے لیے اِس تنظیم کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ماضی گواہ ہے کہ ایس سی او کے پلیٹ فارم سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنائو کو کم کرنے کے لیے کچھ نہ ہو سکا۔
 2023 میں ایس سی او سربراہی اجلاس کے دوران جو ہندوستان میں ہوا تھا اْس وقت کے پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سربراہی اجلاس میںپاکستان کی نمائندگی کی۔ اجلاس کے دوران ہندوستانی وزیر خارجہ جے شنکر نے انتہائی غیر شائستہ اور غیر سفارتی زبان استعمال کی۔  گذشتہ ہونے والے ایس سی اووزراء اجلا س میں ہندوستان کی نمائندگی تھی لیکن اکتوبر میں ہونے والے ایس سی او سربراہی اجلاس میں وزیرِ اعظم نریندرہ مودی کی شرکت کی ابھی تک تصدیق نہ ہوسکی۔ اگرچہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین مخاصمت ہے لیکن اِس  کے باوجود پاکستان کو ایس سی او فورم پر بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ تمام رْکن ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون کوفروغ دیا جائے۔ پاکستان کے لیے ایس سی او کا پلیٹ فارم کئی حوالوں سے منفعت کا سبب ہو سکتا ہے اور یہ سنہری موقع ہرگز ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کو تنظیم کی سطح پر اور رْکن ممالک سے دو طرفہ تعاون کے لیے جامع حکمتِ عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...