جنگ ِ ستمبر بیرونی پریس کی نظر میں

6۔2ستمبر کو کوالا لمپور کے مشہور اخبار ’’UTUSAN MELAYU‘‘ نے لکھا:
’’ اس کے باوجود بھارت کی 40 کروڑ آبادی کے مقابلے میں پاکستان کی محض 10 کروڑ لیکن پھر بھی  پاکستان نے بھارتی حملے کا جراتمندی سے مقابلہ کیا ہے اور شاندار فتوحات حاصل کی ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان اکٹھے تھے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی تقریبا ساڑھے پانچ کروڑ تھی اور مغربی پاکستان کی ساڑھے چار کروڑ۔ 
7۔ 27ستمبر1965کی اشاعت میں مشہور زمانہ ہفت روزہ '' نیوز ویک'' نے اپنے معتبر نیوز رپورٹر  FRANK MELVILLEکے توسط سے لکھا:
’’ شدید بمباری کے باوجود پاکستانی جوانوں کا حوصلہ بہت بلند ہے۔ سخت فائرنگ کے دوران پاکستانی جوانوں کی مضبوط قوت ارادی اور سخت جسمانی برداشت نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔‘‘
7۔ 27ستمبر1965کی اشاعت میں مشہور زمانہ ہفت روزہ '' نیوز ویک'' نے اپنے معتبر نیوز رپورٹر FRANK MELVILLEکے توسط سے لکھا:
’’ شدید بمباری کے باوجود پاکستانی جوانوں کا حوصلہ بہت بلند ہے۔ سخت فائرنگ کے دوران پاکستانی جوانوں کی مضبوط قوت ارادی اور سخت جسمانی برداشت نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔‘‘
8۔'' "INDONESIAN HERALD نے اپنی 15 ستمبر کی اشاعت میں لکھا:
’’ اپنی حالیہ تقریر میں صدر سوئیکارنو نے بتایا ہے کہ کم ہتھیاروں کے باوجود پاکستان نے ہندوستانی حملے کو ناکام بنادیا ہے کیونکہ پاکستان کی جنگ کا مقصد اپنے وطن اور اپنی قوم کا دفاع ہے جیسا کہ غیر ملکی پریس ایجنسیوں نے پاکستان سے رپورٹ بھیجی ہے۔ پاکستان نے سیالکوٹ کے محاذ پر بہت سے بھارتی ٹینکوں کو تباہ کردیا ہے۔ لندن کے مشہور انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز نے ایک مضمون میں ملٹری بیلنس 1964-65 میں لکھا کہ بھارت کے اعلی ہتھیاروں کا مقابلہ پاکستان کی حب الوطنی سے تھا جس نے کمتر ہتھیاروں کے ساتھ اپنے دشمنوں کو مار کر پیچھے دھکیل دیا ہے۔‘‘
 9۔  ARTHUR COOKاپنی مشہور کتاب’’ UNUSED STORY  ‘‘صفحہ نمبر 29 پر رقمطراز ہے:
’’بھارتیوں نے اپنے مغربی جرنلسٹ استادوں سے انفارمیشن بزنس کے متعلق بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ مجھے اس وقت تو اس گر کا پتہ نہ چل سکا لیکن تین ہفتوں کی اس پاک بھارت جنگ میں بھارت کی طرف سے جنگ کی کوریج کرنے والے جرنلسٹوں میں سے کسی ایک کو بھی جنگی محاذ کے نزدیک تک نہ جانے دیا گیا۔ کم سے کم محاذ سے سو میل دور رکھا گیا۔بھارتیوں نے فتح کے تمام دعوے نئی دلی میں بیٹھ کر اخبار نویسوں کو خود بتائے جو بہت زیادہ مبالغہ آمیز تھے۔جب آہستہ آہستہ حقیقت آشکار ہوئی تو یہ سب سفید جھوٹ ثابت ہوئے۔ بھارتیوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر وہ میدان میں نہ بھی جیت سکے تو پروپیگنڈا کے ذریعے ہر صورت جیتیں گے۔‘‘
 اس سلسلے میں بھارت کے اپنے اخبارات پر بھی نظر ڈالیں۔زیادہ تر اخبارات تو وہی کچھ لکھتے رہے جو کچھ فوج فرضی بہادری اور فرضی فتح کی پریس ریلیز دیتی رہی لیکن بعض اخبارات نے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی۔ کلکتہ ڈیلی میل نے 11 ستمبر کو اپنے ایڈ یٹوریل میں لکھا:
’’پاکستان فوج نے واہگہ سیکٹر میں نہ صرف بھارتی حملہ روک دیا بلکہ بعض مقامات پر بھارتی حصار کو توڑتے ہوئے بھارتی علاقہ میں داخل ہو گئی ہے اور کئی ایک بھارتی پوسٹوں پر قبضہ کر لیا ہے۔پاکستان اور بھارت میں کام کرنے والے مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارتی حملہ پاکستان کے دفاع کو توڑنے میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔‘‘ 
16 ستمبر کو ''ٹائمز آف انڈیا'' نے لکھا:
’’پاکستان ہر محاذ پر جوش و جذبے سے لڑ رہا ہے اس سے ظاہر ہے کہ بھارتی فوج کسی بھی محاذ پر پاکستانی علاقے میں داخل نہیں ہو سکی۔‘‘
 اخبار دو سینئر بھارتی جرنیلوں کے درمیان مکالمے کا حوالہ دے کر لکھتا ہے:
’’ ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستانی فوج کوئی گلی محلے کا ہجوم نہیں بلکہ ایک خالص پروفیشنل فوج ہے۔‘‘
اسی طرح اور بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جنہوں نے حقیقت جانے کی کوشش کی اور صحیح رپورٹنگ کی لیکن یہ بھی ماننا پڑتا ہے جس کا آرتھر کک نے لکھا کہ بھارتیوں نے پروپیگنڈا کے ذریعے جنگ جیتنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔اس لیے انہوں نے اخبار نویسوں کو ہر ممکن طریقے سے خریدا اور مرضی کی رپورٹنگ کرائی جنہوں نے بغیر دیکھے بھارتی فتوحات کے بڑے بڑے دعوے کیے۔یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ بھارت نے پروپیگنڈا کے ذریعے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور خصوصا مغربی ممالک سے اپنی مرضی کے فوائد حاصل کیے یہ پروپیگنڈا ہی کا اثر تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے لیے اسلحہ اور خصوصا ایمونیشن پر سخت پابندی لگا دی ۔بھارت کے پاس تو ضرورت سے زیادہ ایمونیشن موجود تھا ۔بالواسہ ذرائع سے بھی بھارت کو لگاتار ضرورت کا سامان ملتا رہا لیکن پاکستان کے پاس چند دنوں سے زیادہ کا ایمونیشن نہ تھا اور بعض تو پوں کا تو محض ایک دن کا ایمونیشن رہ گیا۔ بغیر اسلحہ کے فو جیں نہیں لڑ سکتیں لہٰذا پاکستان کو مجبورا جنگ بندی کا فیصلہ قبول کرنا پڑا۔لیکن یہ قوم پر واضح ہو گیا کہ مانگے ہوئے اسلحے پر جنگ نہیں لڑی جا سکتی ۔
یہ بھی واضح ہو گیا کہ جنگ کی صورت میں ہمیں بھارت کا مقابلہ صرف میدان جنگ میں ہی نہیں بلکہ پروپیگنڈا کے محاز پر بھی کرنا پڑے گا جس کے لیے خصوصی تیاری کی ضرورت ہے۔
………………… (ختم شد) 

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...