بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر پر ہی بات ختم نہیں ہو جاتی۔ بات یوں آگے بڑھتی ہے کہ ’باخدا دیوانہ باشد با محمد ہوشیار‘۔ سو بندے کی اپنے رب سے موج مستی روا لیکن اللہ کے آخری نبیؐ کا معاملہ اور ہے۔ علامہ اقبال نے کہا
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
یعنی آسمان کے نیچے ایک ایسی ادب گاہ (گنبد خضریٰ) ہے جو عرش سے بھی نازک تر ہے۔ جہاں جنید و بایزید بسطامی جیسے درویش بھی سانس روک کر آتے ہیں۔
البتہ دوسرے انبیاء سے شاعروں نے بے تکلفی اور دل لگی کی باتیں ضرور کی ہیں۔
ہمیں بھی جلوہ گاہ ناز تک لے کر چلو موسیٰ ؑ
تمہیں غش آگیا تو حسن جاناں کون دیکھے گا
اور سنئیے!
طور کی برباد مٹی ہو گئی
آپ کا کیا حضرت موسیٰؑ گیا؟
لیکن جب ہمارے حضورؐ کا ذکر چھڑتا ہے تو پھر دیار نبیؐ پھر دیار نبیؐ ہے، کہہ کر زبانیں گنگ ہو جاتی ہے۔ پیر مہر علی شاہ نے اپنی شاہکار نعت کا اختتام یوں کر کے، کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں، قلم توڑ کے رکھ دیا۔
شریعت میں مدینۃ النبی میں پاؤں میں جوتے پہننے کی مناہی نہیں لیکن طریقت والوں سے وہاں جوتے کب پہنے گئے ہیں۔ ایک فرزانہ دیوانوں پر بھی بازی لے گیا۔ عالم اسلام میں ڈاکٹر حمیداللہ علم و فضل میں ایک بڑا نام ہے۔ انہوں نے اسلامی موضوعات پر اتنا لکھا ہے جتنا پڑھنا بھی بڑے بڑوں کو نصیب نہیں۔ سیرت نبویؐ اور نبی اکرمﷺ کی ذات سے والہانہ عشق کی کہانی سنئیے۔ ایک مرتبہ آپ سید سلیمان ندوی مصنف سیرت النبیؐ سے ملاقات کرنے دار المصنفین پہنچے۔ وہاں کتب خانہ کی عمارت میں داخل ہوتے وقت اپنے جوتے اتارنے لگے تو انہیں کہا گیا۔ جوتے مت اتاریئے۔ یہ لائبریری ہے مسجد کا احاطہ نہیں۔ آپ جوتوں سمیت اندر تشریف لائیے۔ مگر ڈاکٹر صاحب کا استدلال تھا۔ جہاں سیرت نبویؐ لکھی گئی وہاں میں جوتے پہن کر کیسے جاسکتاہوں؟ ڈاکٹر حمیداللہ کا علمی مزاج ذہن میں رکھیں تو یہ کلمات باعث حیرت دکھائی دیتے ہیں۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ’’جذب القلوب‘‘ کے نام سے عربی میں ایک کتاب لکھی ہے۔ حضرت مولانا محمد صادق آف بہاولپور نے اس کتاب کا ’’تاریخ مدینہ‘‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں لکھا ہے۔’’امام مالک کا مذہب ہے کہ جو شخص مدینہ منورہ کی زمین کو بے خوشبو کی نسبت کرے اور اس کی ہوا کو ناخوش کہے، وہ واجب التعزیر ہے، اس کو قید رکھنا چاہئے اور جب تک خلوص سے توبہ نہ کرے رہا نہ کیا جائے‘‘۔
کالم کا آغازذکر رسول سے ہوا۔ یہ ذکر یوں چھڑا کہ پچھلے دنوں قیوم نظامی نے اپنی سیرت النبیؐ پر لکھی کتاب ’’معاملات رسولؐ‘‘بھجوائی۔ کالم نگار کو تحفے میں پھل، مٹھائی، خوشبو اور کتابیں بہت بھاتی ہیں۔ پھر یہ تو حضورؐ کی سیرت پر لکھی کتاب تھی۔ جناب قیوم نظامی کا بہت بہت شکریہ۔ یہ عام فہم اور آسان لفظوں میں عام آدمی کیلئے لکھی گئی بہت شاندار کتاب ہے۔ اس کے سادہ طرز تحریر نے بہت متاثر کیا۔ عام آدمی کے ذہن تک رسائی کیلئے ایسا طرز تحریر ہی کارگر ہے۔
قیوم نظامی کا بھٹو پارٹی سے تعلق رہاہے۔ یہاں کالم نگار نے پیپلز پارٹی کی بجائے بھٹو پارٹی کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ آج کی پیپلز پارٹی، بھٹو پارٹی رہی ہی نہیں۔ بھٹو پارٹی اول سے آخر تک جاگیرداری ٹھاہ اور سرمایہ داری ٹھاہ تھی۔ بھٹو پارٹی میں جاگیرداری ٹھاہ والے شیخ رشید تھے۔ قیوم نظامی ان سے خاصے قریب تھے۔ بھٹو نے قید کاٹنے والے اور کوڑے کھانے والے بے لوث سیاسی کارکن پیدا کئے۔ انہی کوڑوں کی سزاکا اعزاز پانے والوں میں سے ایک یہی قیوم نظامی بھی ہیں۔
کالم نگار نے ’’معاملات رسولؐ‘‘چند نشستوں میں پڑھ ڈالی۔ حضورؐ کے روز مرہ کے معمولات یوں بتائے گئے ہیں۔ رات سونے سے پہلے آپؐ پہلے وضو کرتے، پھر مسواک کرتے، آنکھوں میں سرمہ ڈالتے۔ گھر کا دروازہ بند کرتے۔ مشکیزے کا منہ باندھ دیتے۔ پیالہ اوندھا کر کے رکھ دیتے۔ بستر پر لیٹنے سے پہلے دعائیں پڑھتے اور پھر دیا بجھا دیتے۔
ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا۔ ’’جس بستی میں کسی شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ رات بھر بھوکا رہا تو اس بستی سے اللہ کی حفاظت اور نگرانی کا ذمہ ختم ہو گیا‘‘۔
علم حاصل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز، روزہ، حج، جہاد سے افضل ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے۔ میں حضورؐ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ آپؐ نے موٹی اور کھردری چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ ایک بدو آیا۔ اس نے زور سے چادر کو کھینچا کہ اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے میرا حصہ دیا جائے۔ چادر کھینچنے سے آپؐ کی گردن پر نشان پڑ گیا۔ مگر آپ نے بدو کی اس ناشائستہ حرکت پر برہمی کا اظہار نہ کیا اور مال غنیمت میں سے اس کا مناسب حصہ عطا فرمایا۔ یہ آج کے حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ عوام کے احتجاجی مظاہروں پر بھی بڑی پابندیاں لگا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں احتجاج کرنے پر دس برس قید کا قانون صرف غیرمنصفانہ ہی نہیں احمقانہ بھی ہے۔
فتح خیبر میں کثیر مال و دولت کے علاوہ بہت سی زرعی زمینیں بھی مسلمانوں کے ہاتھ آئیں۔ خیبر کے یہودیوں نے حضورؐ سے درخواست کی کہ ہم کاشتکاری کے ماہر ہیں، یہ زمینیں ہمیں ہی حصہ ٹھیکہ پر دے دی جائیں۔ حضورؐ نے یہ زمینیں مجاہدین کو مالکانہ حقوق پر الاٹ کرنے یا ارزاں نرخوں پر لیز پر دینے کی بجائے یہودیوں کو نصف حصہ ٹھیکہ پر دے دیں۔ اس نصف حصہ کی وصولی ریاست کرتی تھی۔
آخر میں ایک واقعہ جس سے پورا اسلامی نظام حکومت ذہن میں آجاتا ہے۔ ابیض بن حمال بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے ان سے اس وقت نمک کی کان واپس لے لی جب انہیں محسوس ہوا کہ نمک کی کان سب مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا۔ ’’اجتماعی مفاد کی ضروری اشیاء ذاتی ملکیت میں نہیں دی جا سکتیں‘‘۔