پیر ‘ 11 ربیع الاول 1446ھ ‘ 16 ستمبر 2024ء

 نمبرز کی گیم کے اعصاب شکن مرحلے کا اختتام
جب تک آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی نہ کوئی نتیجہ سامنے آگیا ہوگا کہ پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ فی الحال تو رات گئے تک نمبر آف گیم پر سب کی توجہ لگی ہوئی ہے کہ 2اور 2 چار ہوتے ہیں یا 22۔ حکومتی اتحاد کے پاس کتنے نمبر ہیں اور کتنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن اتحاد کہتا ہے، یہ ترامیم منظور ہونے نہیں دیں گے، یوں ترامیم منظور کراکے دکھائیں گے اور روک کر دکھائیں گے کی جو ریس لگی ہوئی ہے، اس کا نتیجہ تو شام تک آچکا ہوگا اور پتا چل جائے گا کہ کون فتح یاب ہوتا ہے اور کون اپنے زخم چاٹتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
ان کاجو فرض ہے اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
اس سارے عمل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے ہاں قوت برداشت اور جمہوری رویوں کی کتنی کمی ہے۔ ایک عام بات سے بھی ہمارے سارے سسٹم میں زلزلہ برپا ہو جاتا ہے۔ بات قانون اور جمہوریت سے نکل کر حب الوطنی اور غداری کی حدود چھونے لگتی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے بیانیے کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملا کر عوام کو اپنا ہم نوا بنانا چاہتا ہے۔ عوام بے چارے پہلے ہی بھیڑ بکریوں کا ایسا ریوڑ بنے ہوئے ہیں جسے کوئی بھی گڈریا شور مچا کر ادھر ادھر دوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے ورنہ قانونی اور آئینی موشگافیوں سے عام آدمی کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اسے کیا معلوم کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ تو بس اپنی اپنی سیاسی جماعت کے بیانیہ کی حقانیت کو لے کر سرپٹ دوڑتے پھرتے ہیں۔ اب یہی صورتحال سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں نظر آرہی ہے۔ سب اپنے اپنے خیالی گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ عوام یہ ریس دیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اور کیا کرنا ہے۔ باقی آئینی اور قانونی معامالات میں زیادہ سوجھ بوجھ تو انھیں ہے نہیں۔ بس تماشا دیکھ رہے ہیں۔ 
٭…٭…٭
ایف آئی اے کی کپتان سے دھمکی آمیز  پوسٹ کے حوالے سے تفتیش
 اس وقت ایک اور شرلاک ہومز کی چٹ پٹی مزیدار جاسوسی کہانی گردش کر رہی ہے جس کا سرا گنجل سے تلاش کیا جا رہا ہے۔ اب یہ پتا لگایا جانا ضروری سمجھا جارہا ہے کہ قیدی نمبر 804 کا اڈیالہ جیل سے آئے روز ملکی اداروں کے بارے میں نفرت انگیز بیان ٹویٹ کون جاری کرتا ہے۔ کہاں سے یہ اکاؤنٹ چلایا جاتا ہے، یہ سب کون کرتا ہے۔ اگر انھیں جیل میں یہ سہولت میسر ہے تو بڑی حیرت کی بات ہے۔ سوشل میڈیا سے ہی ہمیں پتا چلا کہ قیدی نے کھل کر گنڈاپور کے وفاق گریز تقریر میں صحافیوں اور خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ کی حمایت کرکے کہا ہے کہ میں ان کے بیان کی مکمل تائید کرتا ہوں۔ ان کے ساتھ ہوں۔ معافی کیوں مانگیں۔ ابھی یہ طوفان بدتمیزی تھما نہ تھا کہ کپتان کا ایک اور ٹویٹ جو خاصہ متنازعہ ہے، ملکی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے۔ اب یہ کون کر رہا ہے، کیا واقعی یہ کپتان خود کر رہا ہے یا ان کی ٹیم کررہی ہے تو اس پر گرفت ضروری ہے کیونکہ اس قسم کے منفی ٹویٹ سے ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ دشمنوں کا کیا ہے وہ تو مزے لیں گے ایسی باتوں سے۔ اب دیکھتے ان تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ کون سا خفیہ ہاتھ سامنے آتا ہے؟ ویسے برا نہ مانیں تو عرض کریں کہ آج تک کوئی خفیہ ہاتھ سامنے لا کر توڑا نہیں جا سکا۔ اگر ایسا کیا ہوتا تو آج کسی اور خفیہ ہاتھ کو ایسی حرکت کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ یہ تو ویسے ہی بڑی حماقت ہے کہ ایک اعلیٰ ترین سول منصب پر فائز رہنما اپنے ہی ملک کے اداروں کے بارے میں کچھ ایسا کہے جس سے ان کی سبکی ہو۔ یہ تو مناسب نہیں۔ اورپھر انھی سے مدد کی درخواست بھی کی جائے بڑی عجیب بات ہے۔
٭…٭…٭
 ٹرمپ اور کمیلا کو ووٹ دینے کی بجائے کسی کم برے کو ووٹ دیں۔ پوپ فراسس
مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے امریکا کے صدارتی الیکشن میں سابق صدر ٹرمپ اور نئی صدارتی امیدوار کمیلا کے بارے میں اپنے بیان میں امریکی ووٹروں سے کہا ہے کہ وہ ان دونوں کو ووٹ نہ دیں، ٹرمپ پر انسانی حقوق کے حوالے سے تارکین وطن کی جبری بے دخلی اور مہاجرین پر پابندیوں کے پروگرام اور کمیلا کی طرف سے اسقاطِ حمل کی حمایت اور اسے امریکی خواتین کا حق کہنے کے بیان پر پوپ بہت غصے میں لگ رہے ہیں۔ اس بارے میں انھوں نے امریکی ووٹروں سے کہا ہے کہ وہ ان دونوں کے مقابلہ میں کسی کم برے امیدوار کو ووٹ دیں۔ اب کیا کریں کہ امریکی جمہوری نظام میں گدھے اور ہاتھی کے علاوہ فی الحال کسی تیسرے پرندے یا درندے کی گنجائش نہیں نظر آتی کیونکہ وہاں صدارتی نظام قائم ہے۔ اگر پارلیمانی نظام ہوتا تو بآسانی زیبرے، اونٹ، گھوڑے اور قسم قسم کے جانور (معذرت کے ساتھ) امیدوار مل سکتے تھے جنھیں ووٹ ڈالنے کا کہا جا سکتا تھا۔ اب فی الحال تو امریکی ووٹروں کو انھی دو پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ ان میں سے ہی کسی کو کم برا قرار دے کر ووٹ ڈالنا ہوگا۔ ٹرمپ تو آزمودہ ہیں، ان کی ذات کے حوالے سے سیاست کے حوالے سے سب جانتے ہیں اور کمیلا اگر کامیاب ہو کر آتی ہیں تو پتا چلے گا کہ محترمہ کیا کرتی ہیں۔ جمہوری رویوں کی پاسداری کون کرتا ہے جلد پتا چل جائے گا۔ فی الحال تو امریکی عوام الیکشن ریلیوں میں شریک ہو کر دونوں کو تول رہے ہیں، جو فیصلہ کریں گے کہ ٹھپہ کس کو لگانا ہے۔ کیا اس وقت تک پوپ کی بات کا اثر موجود رہے گا یا ختم ہو جائے گا۔ 
٭…٭…٭
ایشین ہاکی چیمپئنز ٹرافی میں پول کے آخری میچ میں پاکستان کی بھارت کے ہاتھوں شکست
وقت کے ساتھ ہر چیز بدل جاتی ہے مگر کرکٹ ہو یا ہاکی ہماری قومی ٹیم کی بھارت کے ہاتھوں شکست کی پختہ روایات پر ابھی تک عمل ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ خدا جانے ایسا کون سا سحر ہے جو ہمارے کھلاڑیوں کو جکڑ لیتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی یوں سمجھ لیں دل و دماغ سے عاری ہو جاتے ہیں۔
یوں آبرو بناوے دل میں ہزارباتاں 
جب تیرے پاس آوے گفتار بھول جاوے
یہ نفسیاتی گرہ ایسی پڑی ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود کھل نہیں پاتی۔ اوپر سے ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری قوم کو سب سے زیادہ صدمہ کرکٹ ہو یا ہاکی، دونوں میں بھارت کے ہاتھوں شکست ہوتی ہے۔ لگتا ہے ہمارے کھلاڑیوں کو بھارت کے آگے بھیگی بلی بننے سے بچانے کے لیے ان کے واسطے کسی اچھے نفسیاتی ماہر کی خدمت حاصل کرنی چاہیے۔ ہم کب تک ان کھلاڑیوں کی وجہ سے شرمندہ ہوتے رہیں گے اور شکست خوردہ نظر آتے رہیں گے۔ بے شک ایشین چیمپئنز ہاکی ٹورنامنٹ میں بھارتی ٹیم کی پرفارمنس اچھی رہی اس نے سارے میچ جیتے اور سیمی فائنل تک پہنچ گئی۔ اس کے برعکس ہماری ٹیم کی کارکردگی واجبی رہی۔ تین میچ برابر رہے ایک میں جیتے اور ایک میں ہارے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں بھی سب اچھا نہیں لگتا ورنہ یہ کارکردگی اتنے اخراجات کے مقابلے میں بے معنی ہے۔ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے، خدا خدا کرکے اس میں بہتری کی راہ نکلی تھی کہ ا چانک ہمارے تین کھلاڑی بھاگ کر دوسرے ملک کو پیارے ہو گئے۔ اب دیکھتے ہیں خدا نہ کرے اس ٹورنامنٹ کے بعد اور کتنے پرواز کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...