پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے تعلق کے الزامات پر تجارتی اداروں کے خلاف امریکی پابندیوں پر ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکا کی اس کارروائی کو جانبدارانہ سمجھتا ہے، یہ کارروائی سیاسی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے مبینہ طور پر آلات فراہم کرنے کے الزام میں ایک چینی تحقیقی ادارے اور متعدد کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں جس پر پاکستان کا مناسب، بروقت اور دوٹوک موقف سامنے آیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام اور دفاعی نظام کے راستے میں امریکا نے ہمیشہ ہی روڑے اٹکانے کی کوشش کی اور نگرانی سے لے کر پابندیوں تک ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا تھا۔اس کے مقابلے میں بھارت کی طرف دیکھا جائے تو امریکا نے بھارتی ایٹمی پروگرام کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی۔ 1998ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکی سرکار خاموش رہی لیکن پاکستان نے اپنی سالمیت کی حفاظت اور خطے میں طاقت کے توازن کو یقینی بنانے کے لیے جوابی دھماکے کرنے کا عندیہ دیا تو امریکا نے اس کی شدید مخالفت کی اور لالچ اور دھمکیوں کے ذریعے پاکستان کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ بھارت کہاں کہاں سے اسلحہ خرید کر مقبوضہ کشمیر میں استعمال کر رہا ہے، اس پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں۔ اسی طرح، ایران کے ساتھ تجارت ہو یا گیس پائپ لائن کی تکمیل ، امریکا کی طرف سے اگر پابندیاں ہیں تو وہ صرف پاکستان کے لیے ہیں۔ بھارت ایران سے تیل خرید رہا ہے اور اس کے ریلوے اور چاہ بہار بندرگاہ سمیت کئی منصوبے جاری ہیں لیکن امریکا کو اس سب پر کوئی اعتراض نہیں۔ وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کچھ ممالک عدم پھیلاؤ کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنی پسندیدہ ریاستوں کے لیے جدید فوجی ٹیکنالوجیز کے لیے لائسنس کی ضروریات کو آسانی سے معاف کر چکے ہیں۔ یہ دوہرے معیار اور امتیازی سلوک عالمی عدم پھیلاؤ کی حکومتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں، یہ دوہرے معیار فوجی عدم توازن میں اضافہ کرتے ہیں۔ پابندیوں کے باوجود امریکا کا پاکستان سے دوستی کا بھی دعویٰ ہے۔ ایک موقع پر پاکستان کو امریکا نے نان نیٹو اتحادی بھی قرار دیا تھا۔ یہ کیسی دوستی ہے جو دوہرے معیارات پر قائم ہے؟ امریکا کے پاکستان میں تعلیم سمیت کئی شعبوں میں منصوبے چل رہے ہیں جن سے وہ اپنی مرضی و منشا کے نتائج حاصل کر رہا ہے۔ جب اس کا دوہرا معیار بلکہ پاکستان کے خلاف تعصب واضح ہے تو پھر ہمیں اس کے تمام جاری منصوبوں پر نظر ثانی اور ان کی ہر سطح پر کڑی نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔