مجوزہ آئینی ترامیم پیکیج کی منظوری کے لیے پارلیمان کے ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی کا اجلاس کل (اتوار کو) بلایا گیا تھا لیکن اجلاس مقررہ وقت پر نہیں ہوسکا۔ اجلاس کے بروقت نہ ہوسکنے کا سبب یہ بتایا گیا کہ حکومت کے پاس مجوزہ ترامیم کو منظور کرانے کے لیے پارلیمان میں نمبر پورے نہیں تھے جن کے لیے مسلسل کوششیں کی جاتی رہیں۔ اس حوالے سے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اپنے حق میں کرنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے۔ اسی سلسلے میں جمعہ کو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی اور انھیں آئینی ترامیم کے لیے حکومت کا ساتھ دینے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ جے یو آئی کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کو بھی آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے منانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تادمِ تحریر سامنے آنے والی معلومات کے مطابق، حکومت پارلیمان میں آئینی ترامیم کا جو پیکیج پیش کررہی ہے اس میں بیس سے زائد شقیں ہیں جن میں آئین کی شق 51، 63، 175 اور 187شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، بلوچستان اسمبلی میں کی نشستیں 65 سے بڑھا کر 81 کرنے سے متعلق ترمیم بھی اس پیکیج میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں حزبِ اختلاف کے لیے جو ترامیم پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں ان کا تعلق عدلیہ سے ہے۔ ممکنہ طور پر حکومت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا کر 68 کرنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک آئینی عدالت قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے اور امکانی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل اور ججوں کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل میں بھی تبدیلی لائی جارہی ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ 2006ء میں ہونے والے میثاقِ جمہوریت نامی معاہدے میں بھی آئینی عدالت کا ذکر ہے اور اس پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے بھی دستخط کیے ہوئے ہیں۔
خیر، مجوزہ آئینی ترامیم سے متعلق ارکانِ پارلیمان کو اعتماد میں لینے کے لیے شہباز شریف نے ہفتے کی شام ایک عشائیے کا اہتمام کیا جس میں مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی و سینیٹ آئینی ترامیم پر اعتماد میں لیا گیا۔ اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم کو آئینی ترامیم میں حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم نے تمام ارکان قومی اسمبلی و سینیٹ کو اتوار کو اسلام آباد میں موجود رہنے کی ہدایت کی۔ آئینی ترامیم کے سلسلے میں اپنی رائے دینے کے لیے لیگی رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز فرانس سے اور جے یو آئی (ف) کے رکن مولانا عبدالغفور حیدری چین سے واپس پہنچے۔ ادھر، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھی اپنے اراکین پارلیمان کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا۔
دوسری جانب، حزبِ اختلاف کی طرف سے حکومت کے مجوزہ آئینی ترامیم پیکیج کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے قائد عمر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت رات کے اندھیرے میں جو آئینی ترمیم لانا چاہتی ہے اس کے نمبر پورے نہیں ہوئے۔ قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ہم نے آئین پاکستان کا حلف اٹھایا ہے، درست کو درست اور غلط کو غلط کہیں گے۔ ادھر، وفاقی حکومت کے ترجمان برائے قانونی معاملات بیرسٹر عقیل ملک دعویٰ کررہے ہیں کہ آئینی ترمیم سے متعلق ہمار ے نمبر پورے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی حکومتی نمبرپورے ہیں۔
مجوزہ ترامیم پیکیج پاکستان کے 1973ء میں منظور ہونے والے آئین میں چھبیسویں ترمیم ہوگا۔ اس ترمیم کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، یعنی قومی اسمبلی میں حکومت کے پاس 224 ووٹ ہونے چاہئیں جبکہ سینیٹ میں 64 ووٹ درکار ہیں۔ اس وقت تک قومی قومی میں حکومت کے پاس 211 اور سینیٹ میں 54 ارکان ہیں۔ یوں ایوانِ زیریں میں حکومت کو 13 اور ایوانِ بالا میں 10 مزید ووٹ درکار ہیں جن کے بغیر مجوزہ آئینی ترامیم پیکیج کی منظوری ممکن نہیں۔ حکومت مسلسل اس تگ و دو میں لگی ہوئی ہے کہ کسی بھی طرح سے وہ اتنے ارکان کو اپنے حق میں کر لے کہ وہ آسانی سے مجوزہ ترامیم منظور کراسکے۔
حکومت کی طرف سے کئی بار یہ کہا جاچکا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم پیکیج کا مقصد پارلیمان اور عدلیہ کو مضبوط بنانا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پارلیمان اور عدلیہ کو مضبوط بنانے کے دعوؤں کے باوجود اس پیکیج میں شامل ترامیم کو تاحال منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ اس سلسلے میں جے یو آئی اور بی این پی نے حکومتی ارکان سے یہ تقاضا کیا کہ اگر آپ ہم سے ووٹ لینا چاہتے ہیں تو ان ترامیم کا ڈرافٹ ہمیں دیں تاکہ ہم ان کا جائزہ لے سکیں۔ اگر حکومت واقعی کچھ غلط نہیں کررہی اور مجوزہ پیکیج کے ذریعے کسی ایک جماعت، گروہ یا شخص کو فائدہ یا نقصان نہیں پہنچایا جارہا تو پھر اس پیکیج کو خفیہ رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آئین ایک عوامی دستاویز ہے اور ملک کے ہر شہری کو یہ جاننے کا حق ہے کہ پارلیمان اس دستاویز میں کون سی تبدیلیاں کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ بات اپوزیشن سے زیادہ حزبِ اقتدار کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک اور عوام کا مفاد کسی بھی شخص، گروہ یا جماعت سے برتر ہے۔