علم اور معلومات میں فرق اور آئینی ترمیم

Sep 16, 2024

نصرت جاوید

انگریزی شاعری کو بے شمار نئے زاویوں سے دیکھنے اور دکھانے والا نقاد وشاعر ٹی ایس ایلیٹ بہت عرصے تک مجھے سمجھ ہی میں نہیں آیا۔ ویسے بھی شاعری میرے لیے غالب کے بعد فیض سے ہوتی ہوئی منیر نیازی پر ختم ہوچکی تھی۔ کچھ عرصے کے لیے میں نے بلھے شاہ سے بھی کچھ سیکھنا چاہا۔ بالآخر طے یہ ہوا کہ کسی بھی زبان میں ہوئی شاعری کو اس کی گہرائیوں سمیت سمجھنا میرے بس کی بات نہیں۔بہرحال جن دنوں خود کو لاہور کے چائے خانوں میں بیٹھے دانشوروں کے لیے ’پڑھاکو‘ ثابت کرنے کے چکر میں تھا تو ایلیٹ کی چند نظموں کے حوالے دینا بھی ضروری تھا۔ اسی باعث اس کی چند نظموںکو جبراً پڑھا۔ ان دنوں پڑھی نظموں میں سے ایک نظم کا مصرعہ سوال اٹھاتا ہے کہ وہ ’علم‘ کہاں گیا جو ہم نے ’معلومات-خبروں‘ کے انبار میں کھودیا ہے۔ معلومات (Information)کو موصوف نے علم (Knowledge)سے مختلف شمار کیا تو میں چونک گیا۔ بعدازاں مگر یہ طے کیا کہ ایلیٹ نے بونگی ماری ہے۔ علم بنیادی طورپر کسی خاص موضوع پر میسر معلومات سے ہی تو کشید کیا جاتا ہے۔ اپنے تئیں ایلیٹ کو خام خیال قرار دینے کے بعد زندگی کی دیگر مصروفیات میں کھوگیا۔گزشتہ دو تین برسوں سے مگر ’نالج‘ کو ’انفارمیشن‘ سے جدا کرتا مصرعہ ایک مخصوص تناظر میں تقریباً روزانہ یاد آتا ہے۔ دورِ حاضر کو انفارمیشن کے سیلاب میں گھرابتایا جاتا ہے۔ اخبارات کے بعد آئے 24/7 چینل۔ ان دونوں کی بھرمار کے باوجود عوام کی اکثریت شاکی رہی کہ اشتہاروں کی بدولت زندہ رہنے والے یہ ذرائع ابلاغ ’سچ‘ بیان کرنے میں ناکام ہیں۔ ایوان ہائے اقتدار میں براجمان ہماری قسمتوں کے مالک بنے زمینی خدا جو فیصلے کرتے ہیں ان کے بارے میں ’اندر کی خبر‘ ملتی نہیں۔ ’اندر کی خبر‘ چھپانے کے لیے روایتی صحافت کے نمائندہ اداروں کے منہ حکومتیں سرکاری اشتہاروں سے بند کردیتی ہیں۔ محض اداروں پر کنٹرول ممکن نہ رہا تو ان کے ملازم نمایاں صحافیوں کو ’لفافوں‘ کے ذریعے خریدنے کا چلن شروع ہوگیا۔ عوام میں مقبول ہوئے ٹی وی اینکراس ضمن میں پیش پیش رہے۔ اپنے اداروں سے بھاری بھر کم تنخواہیں وصول کرنے کے علاوہ حکومتوں سے بھی بے شمار مالی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ایسے عالم میں انٹرنیٹ نے عام انسان کے ہاتھ میں موجود موبائل فون کے لیے ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم متعارف کروائے تو بلے بلے ہوگئی۔ کسی بھی ریاست کا ہر شہری’صحافی‘ بھی ہوگیا۔ ’صحافت‘ نامی ہنر پر روایتی ذرائع سے ابھرے مجھ ایسے ’بڈھے‘ نئے ذرائع ابلاغ کے فروغ کے بعد خلق خدا کو ’جھوٹ‘ کے ذریعے گمراہ کرنے کے مرتکب ٹھہرائے جانے لگے۔ عوام کی اکثریت یہ سوچنے لگی کہ ’سچ‘ اب فقط ان یوٹیوب چینلوں کے ذریعے بیان ہوتا ہے جو چند جی دار صحافی ازخود چلاتے ہیں۔ سرکاردربار میں حکمران اشرافیہ کے اصل ارادے جاننا چاہیں تو ان سے رجوع کرو۔ناقابل علاج حد تک جھکی ہونے کے باوجود میں بنیادی طورپر کھلے ذہن کا مالک ہوں۔دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ عمرکے آخری حصے میں داخل ہوجانے کے بعد بندوں کی اکثریت ایک پنجابی محاورے کے مطابق ’رہ جاتی‘ ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ یوں کہہ لیں کہ بڈھے نئے تجربات کے قابل نہیں رہتے۔کالم نگار ہیں تو ماضی میں گرفتار ہوئے کئی بار لکھی باتوں کو دہرانے میں مصروف رہتے ہیں۔یہ بات تسلیم کرتے ہوئے انتہائی لگن سے جدید ترین ذرائع ابلاغ کے ذریعے روایتی صحافت کی بندشوں اور ماہانہ تن خواہ کی مجبوری سے آزاد ہوئے نوجوان ساتھیوں کی فراہم کردہ معلومات کو انتہائی توجہ سے سننا شروع کردیا۔ ان کی بدولت چند مہینے قبل علم ہوا کہ مبینہ طورپر ’فارم 47کی برکتوں سے قائم ہوئی حکومت‘ اعلیٰ عدلیہ کے آزاد منش رویے سے تنگ آنا شروع ہوگئی ہے۔ نظر بظاہر اعلیٰ عدلیہ کے آزاد منش جج دورِ حاضر کے ’منصور‘ ہوئے میرے اور آپ کے بنیادی حقوق اور حق رائے دہی کے تحفظ کے علاوہ حکومتوں کو عوام ذہنوں میں ابلتے سوالات کا جواب فراہم کرنے کو مجبور کررہے ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہوگیا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب ’آزاد منش‘ رویے کو پروان چڑھنے نہیں دے رہے۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب کئی مہینوں تک عمران حکومت کے لگائے الزامات کے دفاع کے لیے نہایت جرأت اور دلیری سے اپنی اہلیہ سمیت اپنے ہی ساتھیوں کے روبرو پیش ہوتے رہے۔ ان دنوں وہ مزاحمت کی بھرپور علامت تصور ہوتے تھے۔ چیف جسٹس کا منصب سنبھالتے ہی ’بدلے بدلے‘ نظر آنے لگے۔بہرحال تاثر یہ پھیلا کہ ریاست وحکومت میرے اور آپ کے بنیادی حقوق کو زک پہنچانے کی جرأت ہی نہیں دکھاسکتیں اگر سپریم کورٹ کے دیے ہرفیصلے پر ہوبہو عمل ہو۔ خاص طورپر ان مقدمات کے فیصلوں کے بعد جہاں موجودہ چیف جسٹس کی رائے کے برعکس فیصلہ آیا ہو۔ خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لیے منتخب اداروں میں مختص نشستوں کے حوالے سے حال ہی میں ایسا ہی ایک فیصلہ 8معزز ججوں کی اکثریت نے دیا تھا۔ حکومت مگر اس پر عمل کرنے کے بجائے عدالت کی آزاد منش روش کو لگام ڈالنے کی کاوشوں میں مصروف ہوگئی۔ حکومتی ارادوں پر کڑی نگاہ رکھنے والوں نے اہم خبر یہ بھی دی کہ آئین میں ترامیم کا منصوبہ ہے۔ مبینہ منصوبے کا آغاز موجودہ چیف جسٹس صاحب کو ان کے منصب پر مزید تین سال کے لیے براجمان رکھنے سے ہوگا۔ ان کی معیادِ مدت میں توسیع کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں کی 
تعداد بڑھاکر ’حق گو‘ ججوں کو اقلیت میں تبدیل کردیا جائے گا۔عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوجانے کی وجہ سے میں مذکورہ منصوبے کی تصدیق وتردید کے قابل نہیں تھا۔ موجودہ پارلیمان کے عددی حقائق پر نگاہ مرکوز رکھتے ہوئے یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ حکومت کے پاس آئین میں ترمیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت ہی موجود نہیں ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں نجانے ’ہنگامہ ہے کیوں برپا‘؟ گزرے جمعہ کی رات مگر شہباز حکومت کے اہم ترین وزیر خواجہ آصف نے صحافیوں کو بتایا کہ ہفتے اور اتوار کے دن قومی اسمبلی اور سینیٹ کے جو اجلاس ’اچانک‘ بلوالیے گئے ہیں ان کا مقصد آئین میں ترمیم کرنا ہے۔ ان کا دعویٰ سنا تو ہفتے کی سہ پہر اس عمر میں قیلولہ قربان کرتے ہوئے تقریباً دو ماہ کے وقفے کے بعد پارلیمان ہائوس پہنچ گیا۔ آئین میں ترمیم کا ارادہ دونوں ایوانوں کے ایجنڈے پر موجود ہی نہیں تھا۔ ایجنڈے میں ذکر نہ ہونے کے باوجود حکومت قواعد وضوابط کو معطل کرتے ہوئے نیا قانون یا آئین میں ترمیم متعارف کرواسکتی تھی۔ حکومتی بنچوں سے وزراء کی اکثریت وزیر اعظم سمیت مگر غائب تھی۔ سپیکر سردار ایاز صادق بھی کرسی صدارت پر موجود نہیں تھے۔ اجلاس شروع ہوتے ہی پیپلز پارٹی کے رہنمابلاول بھٹو زرداری نے طویل خطاب فرمایا۔ اسے سن کر مجھے محسوس ہوا کہ 2014ء کے برس سے ’جمہوریت‘ کہلاتا ’ہائبرڈ‘ نظام جو آدھا تیتر ہے آدھا بیٹرآخری سانسیں لے رہا ہے۔ ذمہ داری اس کی بلاول بھٹو زرداری نے اڈیالہ جیل میں قائد عمران خان کے تازہ ترین ٹویٹر پیغام پر ڈالی جس نے ایک بار پھر عوام کو 1970ء کے بعد ہوئے واقعات یاد دلائے ہیں۔ اپنے خطاب کے بعد وہ ایوان سے باہر چلے گئے۔پریس گیلری میں مزید کچھ وقت گزارنے کے بعد میں نے موجودہ حکومت میں شامل دو سے تین مؤثر شمار ہوتے وزراء سے تنہائی میں ملاقات کے چند منٹ اپنی عمر کی وجہ سے حاصل کرلیے۔ بخدا ان کو ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ حکومت آئین کی کون سی شقوں کو بدلنا چاہ رہی ہے۔ فقط یہ فقرہ ہی دہراتے رہے کہ ’ہمارے نمبر پورے ہیں اور آئینی ترامیم کا جامع مسودہ تیار ہوچکا ہے‘۔ وزراء سے مایوس ہونے کے بعد میں نے جدید ترین ذرائع ابلاغ کی بدولت ہمیں باخبر رکھنے والے دس کے قریب نوجوانوں سے گفتگو کی اور جاننا چاہا کہ آئین کی کون سی شقوں میں کس نوعیت کی ترمیم کے ذریعے حکومت کیا حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ تمام ساتھی بھی مجھ کم عقل کو ٹھوس ’خبر‘ دینے میں ناکام رہے۔ ویسے بھی ان کے پاس میرے ساتھ بیٹھنے کا وقت نہیں تھا۔ وہ جلد از جلد پارلیمان سے نکل کر یوٹیوب کے ذریعے عوام کو بتانا چاہ رہے تھے کہ سپریم کورٹ کے 8عزت مآب ججوں نے کس طرح ہفتے کی شام ایک ’وضاحت‘ جاری کرنے کے بعد حکومت کے آئین میں ترمیم کے ارادوں کو ناکام بنادیا ہے۔ ٹھوس معلومات کے بغیر گھر لوٹتے ہوئے مجھے ایلیٹ کا مصرعہ ایک مختلف وجہ سے یاد آتا رہا۔ سوچتا رہا کہ ’خبر‘ کہاں گئی جو ہم ’ذہن سازی‘ کے لیے برپا شوروغوغا میں کھوچکے ہیں۔

مزیدخبریں