ترامیم پیش نہ ہو سکیں، سینٹ، قومی اسمبلی اجلاس آج تک ملتوی

اسلام آباد (خبر نگار+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ) حکومت کی جانب سے کی جانے والی مجوزہ آئینی ترامیم سامنے آگئیں جن میں 20سے زائد شقیں شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق آئین کی شقیں 51، 63، 175، 187 میں ترمیم شامل ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافے، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں65 سے بڑھا کر81 کرنے اور آئین کے آرٹیکل 63 میں ترامیم شامل ہیں۔ منحرف اراکین کا ووٹ، آرٹیکل 63 میں ترمیم، آئین کے آرٹیکل 181میں بھی ترمیم کئے جانے کا امکان ہے۔ آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائے گی۔ آئینی عدالت میں آرٹیکل 184، 185، 186 سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوگی۔ ہائیکورٹ کے ججز کو دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں ٹرانسفر کرنے کی تجویز ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز کے پینل سے ہوگی۔ آئینی عدالت کے باقی 4 ججز بھی حکومت تعینات کرے گی۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کی تعیناتی کیلئے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو اکٹھا کیا جائے گا۔ آئین کا آرٹیکل 181 ججز کی عارضی تقرری سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 184 از خود نوٹس اختیار سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 185 فیصلوں پر اپیل سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 186 صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے مشاورتی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 63 رکن پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 63 اے ڈی فیکشن کلاز ہے اور پارٹی سربراہ کے اختیار سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 51 مخصوص نشستوں سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 175 سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی تشکیل اور ججز کی تقرریوں سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 175 اے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز کی تعیناتی سے متعلق ہے۔ آئین کا آرٹیکل187 مکمل انصاف سے متعلق ہے۔  قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس دن میں تین تین بار ملتوی ہوئے ہیں جبکہ اتنی ہی بار کابینہ کا اجلاس میں ملتوی ہوا۔ علاوہ ازیں  قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار کو سات گھنٹے کی تاخیر سے رات گیارہ بجکر چار منٹ پر سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا۔ تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول مقبولؐ کی سعادت کے بعد ایوان میں قومی ترانہ پڑھا گیا جس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی سیکرٹری بلال اظہر کیانی کو آج کے ایجنڈے میں وقفہ سوالات اور توجہ دلاؤ نوٹس کو کل تک موخر کرنے کیلئے تحریک پیش کرنے کیلئے فلور دیا۔ ایوان نے تحریک کثرت رائے سے منظور کرلی جس کے بعد سپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 16 ستمبر بروز پیر دن ساڑھے بارہ بجے تک ملتوی کر دیا۔ ایوان جس کے اجلاس میں اتوار کو مجوزہ ترمیمی بل پیش کرنے کے لئے دن بھر پارلیمنٹ ہاؤس، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ اور پرائم منسٹر ہائوس میں طویل مشاورتی رابطے اور ملاقاتیں جاری رہیں اور اس بات کا انتظار ہوتا رہا کہ کسی بھی لمحے وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوگا اور مجوزہ ترمیمی بل کا مسودہ منظور کر لیا جائے گا لیکن وفاقی کابینہ کا اجلاس کا وقت بھی بار بار ملتوی ہوتا رہا اور یہ اجلاس بھی پیر کے روز ساڑھے گیارہ بجے تک  موخر ہوگیا۔ دریں اثناء آئینی ترمیم کیلئے بلایا گیا سینٹ کا اجلاس شروع ہوئے بغیر ملتوی کردیاگیا۔ سینٹ کے اجلاس کیلئے سہ پہر چار بجے کا وقت طے کیا گیا تھا جو تبدیل کرکے شام سات بجے رکھا گیا اور بعدازاں دس بجے کا وقت بتایا گیا لیکن قومی اسمبلی اجلاس شروع ہوکر ملتوی ہونے کے بعد سینٹ کا اجلاس بھی آج دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ علاوہ ازیں جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ججز ایکسٹینشن یا مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے۔ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمان نے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ ایکسٹینشن یا مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ سید خورشید شاہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں جے یو آئی سربراہ، سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، رانا تنویر، چوہدری سالک، اعجاز الحق، سید نوید قمر و دیگر نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے مجوزہ آئینی ترمیمی بل پر مزید مشاورت کی تجویز دی۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی نے موقف پیش کیا کہ جلد بازی میں قانون سازی نہ کی جائے، یہ ایسا آئینی معاملہ ہے جس پر مزید مشاورت درکار ہے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے آئینی عدالت کے معاملے پر حکومت کو مشروط حمایت کا یقین دلایا ہے۔ دریں اثناء  پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی جماعتوں نے آئینی عدالت کی مشروط حمایت کر دی۔ خصوصی کمیٹی کا ایک ہی دن میں مسلسل چوتھی بار خورشید شاہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن اور حکومتی جماعتوں نے آئینی عدالت کی مشروط حمایت کر دی۔ پی ٹی آئی، جے یو آئی اور حکومتی اتحاد کی جماعتیں آئینی عدالت پر مشروط رضامند ہیں۔ دریں اثناء  اجلاس میں شرکت کیلئے راجہ پروریز اشرف، رانا تنویر، عرفان صدیقی، انوشہ رحمان پہنچے۔ وفاقی وزیر چودھری سالک حسین، اعجاز الحق، سید نوید قمر بھی اجلاس میں شرکت کیلئے پہنچے۔ پی ٹی آئی کا وفد بھی خصوصی کمیٹی اجلاس میں شرکت کیلئے پہنچا۔ بلاول بھٹو زرداری بھی خصوصی کمیٹی اجلاس میں شرکت کیلئے گئے۔ دریں اثناء  صدر آصف علی زرداری سے قانونی ٹیم نے ملاقات کی۔ قانونی ٹیم نے صدر آصف علی زرداری کو ایوان صدر میں مجوزہ آئینی ترامیم پر بریفنگ دی۔  قانونی ٹیم کی قیادت  وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کی۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو زرداری سے اٹارنی جنرل نے ملاقات کی۔ اٹارنی جنرل نے بلاول بھٹو کو مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودہ پر بریفنگ دی اور مولانا فضل الرحمن کی تجاویز سے بھی آگاہ کیا۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کے گرفتار ارکان اسمبلی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔ پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں کو اسلام آباد پولیس نے پارلیمنٹ ہاؤس منتقل کیا۔ دریں اثناء وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اتوار کو دن تین بجے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے اور اپنے چیمبر میں مصروف وقت گزارا۔ وفاقی وزراء سے بھی ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے ترمیم پیش کرنے کے موقع پر شاہراہ دستور اور ریڈ زون کے سکیورٹی انتظامات بھی چیک کئے اور پولیس، انتظامیہ، رینجرز اور ایف سی کے افسران کو ہدایات بھی جاری کیں۔
اسلام آباد(رانا فرحان اسلم) جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان آئینی ترامیم کے حوالے سے دن بھر توجہ کا مرکز بنے رہے حکمران جماعت سمیت  اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی اعلی سطح کی قیادت ان سے مذاکرات کیلئے ان کی رہائش گاہ پردن بھرآمدورفت کا سلسلہ جاری رہا پارلیمنٹ ہاوس کے اندربھی  مولانافضل  الرحمان کاانتظار کیا جاتا رہا جبکہ مولانافضل الرحمان اپنے گھر آنے والے تمام وفود کا گرم جوشی سے استقبال کرتے رہے ا س دوران مولانا فضل الرحمان نے میڈیاکے  سوالات کے جواب میں کہا کہ بس دیکھتے جائیں جبکہ جے یوآئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری نے کہاکہ ہمیں آئینی ترامیم کامسودہ د ہی نہیں دیا گیا آخرحکومت کو جلدی کس بات کی ہے مولانا فضل الرحمان کا گھر دن بھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا جبکہ دوسری جانب مولاناکی جانب سے آئینی ترامیم بارے حکومت کی حمایت یا مخالفت بارے بھی قیاس آرائیاں ہوتی رہیں ملاقات کیلئے جانے والے حکومتی وفد نے بھی دبے دبے لفظوں میں پہلے مولانا کی جانب سے حمایت کئے جانے کاااعلان کیا اسی طرح پی ٹی ائی کے وفد نے ملاقات کے بعد وکٹری کا نشان بنایا رات گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے مولانا جب پارلیمنٹ ہاوس  پہنچے تو انھوں نے ہرسوال کے جواب میں کہا کہ بس دیکھتے جائیں ایوان بالا کے اجلاس  میںآئینی ترامیم کے حوالے سے آج ہنگامہ  خیز اجلاس متوقع ہے  جس میں   پی ٹی آئی  کی جانب سے   حکومت کو  ٹف ٹائم   دیئے جانے کاامکان ہے۔

ای پیپر دی نیشن