حکمرانوں کا مسئلہ مرضی کے ججوں، جرنیلوں کی مدت ملازمت میں توسیع: حافظ نعیم 

لاہور (خصوصی نامہ نگار) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکمرانوں کا مسئلہ مرضی کے ججوں،جرنیلوں کی مدت ملازمت میں توسیع کرانا ہے،جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی بات کرنے والے پارلیمنٹ کو بے توقیر کررہے ہیں،  اسلام آباد میں منڈیاں لگا کر توسیع لینا روایت بن چکی ہے،جماعت اسلامی نے باجوہ کو ایکسٹینشن نہیں دی،اس طبقے کے خلاف متحد اور منظم ہو کر جدوجہد کی ضرورت ہے،ملک کو امن،جمہوری آزادی،سستی بجلی اور مضبوط معیشت کی  ضرورت ہے، معاہدہ راولپنڈی کی مدت ختم ہونے کو ہے جلد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کروں گا۔ تاجروں،کسانوں، طلبہ، نوجوان اور ماؤں بہنوں سے کہتا ہوں جماعت اسلامی کے ممبر بنیں اور پاکستان کو ظالم اشرافیہ سے آزاد کرانے میں ہمارا ساتھ دیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سیالکوٹ  میں ممبرشپ کیمپ کے افتتاح کے موقع پر کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جاوید قصوری اور امتیاز بریار بھی تھے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دفاعی بجٹ سے زیادہ آئی پیز پر خرچ ہورہاہے،  اس وقت سیالکوٹ اور فیصل آباد سمیت بڑے شہروں کے صنعت کار اور تاجر پریشان ہیں،وہ سرمایہ منتقل کرنا چاہتے ہیں، ملک میں کچے اور پکے کے ڈاکوؤں کا راج ہے، حکمران اپنی فری بجلی، پٹرول اور سرکاری بڑی گاڑیوں کا استعمال بند کریں، حکومت سے معاہدہ پر عمل درآمد کے لیے منظم جدوجہد کا آغاز کرنا پڑے گا۔ شٹر ڈاؤن، پہیہ جام سمیت تمام آپشنز موجود ہیں، مشاورت کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کروں گا۔ نائب امیر جماعتِ اسلامی،لیاقت بلوچ نے منصورہ میں حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات کی اور ملکی حالات، پارلیمنٹ میں بدنیتی پر مبنی قانون سازی، آئینی ترمیم کے متوقع اقدامات اور دھرنا کے بعد معاہدہ اور حکومت کی غیرسنجیدگی کے معاملات کے علاوہ ملک بھر خصوصاً بلوچستان، خیبرپی کے  میں دہشت گردی اور حکومتی غلط اقدامات سے ابتر صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا۔ لیاقت بلوچ نے دارِ ارقم سکولز کے تین سو پرنسپلز کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماہ ربیع الاول اہلِ ایمان اور پوری انسانیت کے لیے دائمی پیغامِ انقلاب ہے کہ تعلیم، تربیت، اخلاق، تقویٰ، بندگی رب، ظلم و جبر سے نجات اور امن و انصاف کا نظام اسوہِ محمدؐ پر عمل سے ہی ممکن ہے۔ دْنیا کو کسی نئے انقلاب کی نہیں، محمد عربیؐ کے برپا کردہ عالمگیر انقلاب کی راہوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور ریاستی ادارے ازسرنو بڑے ٹکراؤ کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن