پروپیگنڈے کی جیت نہ ہونے دیں!!

آج کل سب سے بڑا ہتھیار پروپیگنڈا ہے اور پروپیگنڈے کا مطلب یہ ہے کہ اپ مسلسل جھوٹ میں مختلف خبریں گڈمڈ کر کے پیش کریں تو وہ اپنا کام کر کے دکھائے گا اور سننے والے کو تذبذب کی حالت میں ڈال دے گا اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہو گا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کدھر چھپا ہوا ہے .اپنی بات سمجھانے کے لئے یہ بھی بتا دوں کہ مختلف تکنیک سے ذرائع سے جب اپ جھوٹ کو سچ کے لبادے میں جزباتی رنگ دے کر عین موقع و محل پر کسی خطرناک ہتھیار کی طرح استعمال کریں گے تو مختلف طبقات مختلف اذہان مختلف شخصیات پر وہ الگ الگ اثرات ڈالتا ہے اور امھیں جھوٹ اور سچ کے کشمکش میںبتلا کرتا ہے .اس بات سے کس کو انکار ہے کہ فوج کو سیاست میں کاروبار میں اور مختلف حکومتوں کے بنانے مٹانے گرانے میں حصہ نہیں لینا چاہیے اور کسی ایک سیاستدان کو اسمان کا تارا اور دوسروں کو ڈاکو چور اور کرپٹ پیش کرنے کا اختیار بلکل نہیں ہونا چاہیے اور سیاست سے دور ریاست کی فکر کرنی چاہیے .بات پروپیگنڈے کی ہو رہی ہے تو اج سے کئی برس پہلے یہ بات دھیرے دھیرے پھیل رہی تھی کہ دہشت گردی کو پھیلانے اس کو فروغ دینے میں ہمارے ملک کے کئی  دشمن عیاں طور پر یا چپ کر ملے ہوئے ہیں اور وہ ہر وہ لمحہ ہر وہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں کہ اس ملک کے فوج کو لمزور کر کے لوگوں کی نظروں میں گرا کر یہاں انتشار کی فضا قائم کر کے وہ اپنے مذموم عزائم کو تکمیل تک پہنچا دیں اور اسی میں وہ کافی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں.لکی مروت میں جب پولیس کے جوان نکلے اور اپنے ہی دھرتی کے محافظوں پر الزامات کی بھرمار کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی سے بغاوت کر کے مین روڈ کو بند کیا اور تین دن سے وہاں پر بمعہ اسلحہ کے بیٹھے ہیں اور امن کا مطالبہ پیش کر رہے ہیں اور ان کو دیکھ کر اور ضلعی پولیس والوں نے بھی ان کی پیروی شروع کی ہے اور ایک ایسی تصویر پیش کی جا رہی ہے جس میں یہ دکھایا جا رہا ہے جیسے اس ساری دہشت گردی قتل و غارت بم دھماکوں اور خودکشحملوں کے پیچھے خدانخواستہ ہماری فوج ہے ؟سیاست میں مداخلت شخصیات و سیاسی رہنماوں میں پسند و ناپسند اور کچھ انفرادی شخصیتوں کے برے کاموں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا جسطرح مشرف اور فیض حمید اور دوسرے لوگوں نے اس خاکی وردی کے تقدس کو پامال کر کے رکھدیا لیکن فوج اپنے لوگوں کا قاتل بنے پولیس کو مارے دشمن سے ملے یہ کسی صورت میں ناقابل یقین ہے اور کوئی  پاگل یا ملک دشمن یا غیر ملکی ایجنٹ ہی اس پر یقین کر سکتا ہے .کل وزہرستان میں شہید ارمی افیسر کے پھول جیسے نوخیز لفٹننٹ کو خون کے سمندر میں نہاتے دیکھا اور ان کے ساتھ خوبصورت کھلتے چہروں والے حوالدار سپاہی اور صوبیدار کی جسد خاکی دیکھی تو مان گیا کہ اپنی مٹی پر قربان ہونے والے یہ خاکی وردی کے جوان اور یہ ادارہ اپنی خون سے اس ملک کی حفاظت کر رہا ہے اور ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ غیر ملکی ایجنٹوں کا یہ جھوٹا پروپیگنڈا ہے کہ یہ فوج اپ کی دشمن ہے اور جب مختلف مصالحے لگا کر مختلف قصوں کی صورت میں جب کم تعلیم یافتہ لوگ اس کو سنیں گے تو من و غن اس پر عمل بھی کریں گے .اس نازک مرحلے پر کل پارلیمنٹ میں مولانا فضل الرحمان کی مدبرانہ تقریر سنی تو خوشی ہوئی کہ لوگوں کو پروپیگنڈے کی زد سے نکالنے کا یہی وقت ہے اور اسی طرح حافظ نعیم الرحمان امیر جماعت کو بھی ایسا ہی بیان دینا چاہیے تاکہ فوج باقی کام چھوڑ کر حکمران دوسرے مشاعل چھوڑ کر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دشمن کے زہریلے پروپیگنڈے کا شکار عام لوگوں کو اس جلتی اگ کے شعلوں سے نکال سکیں اور غیر ملکی ایجنٹوں کے افواہوں سے لوگوں کو بچا کر ایک ملک ایک قوم اور ایک دین و مذہب و حب الوطنی کی بات کر سکیں.اس وقت دشمن کے صفوں میں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں وہ خیبر پختومخواہ کی حالت بلوچستان میں لگے اگ پر خوشی کے بھنگڑے ڈال رہے ہیں جبکہ وہ محبان و طن وہ محبان پاک فوج وہ محبان دین و مذہب بہت بڑے تشویش میں مبتلا ہیں کہ اس وقت دشمن کے خطرناک پروپیگنڈے اور کاروائیوں کا کوئی موثر علاج ہمیں دکھائی نہیں دے رہا ہے.آئیے عہد کریں کہ مختلف منفی باتوں کا مختلف سوشل میڈیا کا مختلف ویڈیوز و شخصیات کا اور چینل کا موثر جواب اپنے علم و ہنر سے اپنے الفاظ سے اپنے اکاونٹ سے دیں تاکہ سچکو اگے لا کر جھوٹ کے اس طوفانی دور میں اپنے وطن اپنے قوم اور اپنی فوج کا ساتھ دیں اور اس پر انچ نہ انے دیں کیونکہ سخت وقت کا اغاز ہو چکا ہے ہر طرف مایوسی پھیل گئی  ہے اور حالیہ بلوچستان لکی مروت اور باجوڑ میں پولیس کے احتجاج نے یہاں پر موجود حالات کو ایک اور ڈگر پر ڈال دئہے ہیں اور ہر کوئی حیرت کی تصویر بنا ہے کہ یہ ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے .

اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے اتے ہیں

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...