وقت میں بے برکتی، آخر کیوں!

آج کی تیز رفتار دنیا میں ہم اکثر لوگوں کو یہ شکایت کرتے ہوئے سنتے ہیں کہ "میرے پاس وقت نہیں!" صبح سے لے کر رات تک، حتیٰ کہ رات بھر، مسلسل مصروف رہنے کے باوجود بھی محسوس ہوتا ہے کہ وقت جلد گذر گیا اور ہم اپنا کام مکمل نہیں کر پائے ( صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے ... عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے)۔ ہم اپنے روزمرہ کے نظام الاوقات میں مصروف رہتے ہیں، ایک کے بعد ایک کام نمٹاتے ہیں، لیکن پھر بھی اندرونی طور پر یہ گہرا احساس ہمیں ستاتا رہتا ہے کہ ہماری زندگی میں کچھ کمی ہے (ہمیں ہر وقت یہ احساس دامن گیر رہتا ہے ... پڑے ہیں ڈھیر سارے کام اور مہلت ذرا سی ہے)۔ وہ کمی جو ہمیں محسوس ہوتی ہے، عام طور پر "برکت" کہلاتی ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد جنہوں نے انہی چوبیس گھنٹوں میں بہت زیادہ کام سر انجام دیے، ان کے برعکس آج ہم خود کو مسلسل وقت کی کمی کے دباؤ میں قید دیکھتے ہیں، حالانکہ ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے جو ہمارا وقت بچانے اور ہماری زندگی کو آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود یہ سوال بہرحال برقرار رہتا ہے کہ ہمارے وقت میں برکت کیوں نہیں رہی؟

وقت میں برکت سے مراد یہ ہے کہ آپ کو تھوڑے وقت میں زیادہ کام سر انجام دینے کی صلاحیت، طاقت اور عنایت مل جائے۔ ہمارے سلف صالحین نے اپنے وقت کو اس قدر موثر طریقے سے استعمال کیا کہ اپنی ایک ہی زندگی میں ناقابل یقین کارنامے سر انجام دیے۔ سلطنتیں تعمیر کرنے سے لے کر لازوال و بے مثال کتابیں لکھنے، سائنسی تحقیق کرنے اور تہذیب کو آگے بڑھانے تک، ان کے وقت میں آج کے مقابلے میں زیادہ برکت تھی۔ نبی مکرم حضرت محمد ﷺ نے صرف 23 سال کے عرصے میں ایک مکمل معاشرہ کو بدل دیا، دینِ اسلام قائم کیا، عالمی تہذیب کی بنیاد ڈالی، اور زندگی کے لیے ایک جامع رہنمائی فراہم کی۔ اسی طرح خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے اپنے مختصر دور خلافت میں ایک وسیع اسلامی سلطنت کو حکمت اور دوراندیشی کے ساتھ منظم کیا۔ لائبریریاں، اسکول، اور انفراسٹرکچر قائم کیے، اور انصاف کو پوری دیانت داری اور مساوات کے ساتھ نافذ کیا۔ امام غزالی  جیسے اسلامی علماء نے ایسے مؤثر علمی و تحقیقی کام کیے جو آج بھی اسلامی فکر کو متاثر کرتے ہیں، اور یہ سب کچھ انہوں نے ایک معلم، فلسفی اور روحانی رہنما کی حیثیت سے بھرپور زندگی گزارنے کے ساتھ کیا۔ اسی طرح، الجبرا کے بانی الخوارزمی نے ریاضی میں انقلابی کارنامے سر انجام دیے، جو آج بھی اس مضمون کی بنیاد ہیں۔ ان شخصیات کی کامیابی صرف صلاحیت یا وسائل کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ یہ ان کے وقت میں موجود برکت کی وجہ سے تھی۔
آج ہمارے پاس بے مثال تکنیکی ترقی، سہولیات اور فوری طور پر علم تک رسائی موجود ہے، وہ کام جو کبھی گھنٹوں یا دنوں میں مکمل ہوتے تھے اب منٹوں میں ہو جاتے ہیں، ہم دنیا بھر میں فوری طور پر پیغامات بھیج سکتے ہیں، چند گھنٹوں میں وسیع فاصلے طے کر سکتے ہیں، اور ایک بٹن کے کلک پر لا محدود معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، لیکن جدید دور کا المیہ یہ ہے کہ ان تمام آلات کے باوجود جو وقت بچانے کے لیے بنائے گئے ہیں، ہم مسلسل یہ محسوس کرتے ہیں کہ وقت ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے ( وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر  ... آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے)۔ اس تضاد کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وقت کی قدر کرنے میں فرق ہے۔ ماضی میں وقت کو نعمتِ الٰہی سمجھا جاتا تھا، جسے عقلمندی سے استعمال کرنا ضروری تھا، لیکن آج ہمارا زیادہ تر وقت فضول کاموں میں ضائع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ہمارے نبی حضرت محمد? نے فرمایا  تھا کہ مومن کے اسلام کا حسن یہ ہیکہ وہ  فضول کاموں میں وقت ضائع نہیں کرتا۔ جبکہ سوشل میڈیا، نہ ختم ہونے والی نوٹیفیکیشنز، اور بے مقصد سکرولنگ نے ایک ایسی ثقافت کی طرح ڈالی ہے جہاں مصروفیت تو بہت ہے، لیکن مقصدیت کا فقدان ہے۔ ہم گھنٹوں اسکرینوں کے سامنے گزار سکتے ہیں، لیکن دن کے اختتام پر دکھانے کے لیے ہمارے پاس کچھ خاص بامقصد نہیں ہوتا۔ 
وقت کی بے برکتی کی کئی اہم وجوہات ہیں جن میں سرِفہرست مضبوط روحانی تعلق کا فقدان ہے۔ ماضی میں لوگ نماز اور اللہ کی یاد سے وقت کو منظم اور بامقصد بناتے تھے، لیکن آج مصروف زندگی میں یہ اہمیت کھو گئی ہے۔ ایک اور وجہ ترجیحات کی غلط ترتیب ہے، جہاں مادی کامیابی اور ذاتی کامیابی کو اکثر عقیدے، خاندان اور برادری سے بالاتر رکھا جاتا ہے۔ ماضی میں لوگوں کی زندگیاں ایمان، خاندان اور معاشرتی ذمہ داریوں کے گرد مرکوز ہوتی تھیں، جس سے وہ اپنے وقت کا بہتر استعمال کرتے تھے۔ آج ہم مادی کامیابیوں اور دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں، جس سے روحانی تسکین اور بامعنی رشتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مزید برآں، جدید دور کے تجارتی معاملات، جیسا کہ ضرورت سے زیادہ موبائل کا استعمال، ٹیکنالوجی پر حد سے زیادہ انحصار، اور مسلسل خلفشار، نے ہمارے زمانے میں برکت کے احساس کو مزید ختم کر دیا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد کی سادہ زندگیوں میں وقت کو اہمیت دی جاتی تھی جبکہ فطرت اور زندگی کی سادگی سے دوری نے ہمارے وقت کی برکت کو کم کر دیا ہے۔ آج ہم جس مصنوعی ماحول میں رہتے ہیں وہاں سکون کی جگہ شور اور اسکرینوں نے لے لی ہے۔
اگر ہم اپنے وقت کو بابرکت بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر کام بسم اللہ سے شروع کرنا ہو گا، رات جلدی سونا اور فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے معاشی کاموں میں مشغول ہونا ہو گا، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے امت کے لیے دن کے ابتدائی حصے میں برکت کی دعا فرمائی ہے۔ اس کے علاوہ روحانی طریقوں یعنی نماز، ذکر  اور استغفار میں باقاعدگی سے مشغول ہونا ہو گا، روزمرہ کی زندگی میں مذہبی اور اخلاقی اقدار پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی، اپنی زندگیوں کو آسان بنانا ہو گا، سوشل میڈیا اور تفریح پر صرف ہونے والے وقت کو کم کرنا ہو گا، شکر گزاری کا وطیرہ اپنانا ہو گا، واضح، بامقصد اہداف متعین کرنے ہوں گے، کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر منظم کرنا ہوگا، خاندان اور برادری کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے ہوں گے، ورزش، خوراک اور مناسب نیند کے ذریعے جسمانی صحت پر توجہ دینی ہو گی، تخلیقی سرگرمیوں میں مشغول ہونا ہو گا،  قدرتی ماحول میں وقت گزارنا ہو گا، فضول خرچی سے اجتناب کرنا ہو گا، دل سے نفرتوں کو نکال کر محبتوں کو جگہ دینا ہو گی، مثبت عادات اپنانا ہوں گی، ملٹی ٹاسکنگ والے رویے پر قابو پانا ہو گا۔ 
اگر ہمیں ان چیزوں کا احساس ہو گیا تو ہم اپنے وقت کو بابرکت بنا کر اس سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں ورنہ یاد رکھیں کہ  وقت ایسا قیمتی اور ناقابل واپسی اثاثہ ہے جو ایک بار ضائع ہو جائے تو پھر کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ( سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں ... گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں)۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...