کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 

محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات، خاتم النبینّ،آقائے کل جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادتِ باسعادت ملک بھر اور پوری مسلم دنیا میں سرشاری محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے۔ ملت اسلامیہ' مسلمانانِ عالم 12 ربیع الاول کا دن اپنے پاک نبی ؐکے ساتھ محبت و عقیدت کے اظہار کیلئے عیدمیلاالنبی کی صورت میں مناتے ہیں اور اس دن اپنے اپنے انداز میں جشن میلاد النبی منا کر رحمۃ للعالمین صلی للہ علیہ وسلم کے حضور سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسی مناسبت سے فرزندانِ توحید اور غلامان محمد ملک بھر میں محافل میلاد منعقد کرکے اور گلیوں' بازاروں' شاہراہوں' مساجد اور گھروں کو برقی قمقموں' سبز جھنڈوں' جھنڈیوں اور روضہ رسول کے ماڈلز کے ساتھ سجا کر جشن ِمیلاالنبی منا رہے ہیں سرکاری و نجی سطح پر جشنِ میلادالنبی کی خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے جن میں حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کٹ مرنے کے جذبے کا اعادہ اور عقیدہ ختم نبوت کو اجاگر کیا جائے گا'وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس بار شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اجاگر کرنے اور تحفظِ ختم نبوت کیلئے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے ہیں وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی حکومت نے تقدیس ختم نبوت کے جذبہ سے سرشار ہے اور رحمۃ للعالمین اتھارٹی کو فعال کیا ہے۔ اس اتھارٹی کا مقصد اسوہ حسنہ کے مطابق زندگیاں گزارنے کی ترغیب دینا اور عقیدہ ختم نبوت پر کوئی آنچ نہ آنے دینا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہے' بانی پاکستان نے ہمیشہ اپنی زندگی میں یہ تلقین کی کہ پاکستان کی بھلائی اسی میں ہے کہ یہاں اسوہ حسنہ کا نظام نافذ کیا جائے' جو ہر طبقہ فکر کے لیے سماجی تحفظ فراہم کرتا ہے' ریاست مدینہ میں بنی کریمﷺ نے مسلمانوں کے علاوہ ریاست میں بسنے والے ہر شہری کے لیے امن اور ان کی زندگی کی ضمانت دی تھی لیکن اس متعصبانہ دنیا میں مغرب کے انتہاء  پسند اور الحادی قوتیں  بے شرمی کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں' اہل پاکستان نے ہمیشہ ان کے خلاف زبردست رد عمل دیا اور مزاحمت دکھائی ہے' ہماری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں نے مذمتی قراردادیں منظور کیں اور وزیراعظم نے مسلم سربراہان کو خط لکھ کر ان سے اسلامو فوبیا کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی اور عالمی قیادتوں اور اداروں سے مسلمانوں کو برابر کی عزت دینے کا تقاضا کیا ہے بلاشبہ اتحادِ امت کا ٹھوس مظاہرہ ہو تو دنیا کے کسی بھی خطے میں ملعونوں کو منفی سوچ کی جرات نہیں ہو گی۔ذاتِ باری تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کیلئے ہدایت کا آخری سرچشمہ بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت انسانی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز اور ایک نئی جہت کا تعین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور بعد کے زمانوں کا تقابل کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد انسانیت کلیتاً ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی، تہذیب، کلچر اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ، قیام اور استحکام کے وہ نظائر ملتے ہیں جن کا نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل وجود نہ تھا بلکہ ان کا تصور بھی مفقود تھا۔ یہ سب ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ازلی اور ابدی فیضان تھا جو آپ کی بعثت کے بعد آپ کی ذاتِ مبارکہ کے ذریعے عالم انسانیت میں جاری و ساری ہوا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے رہنمائی اور اخذ فیض کے جو مناہج بطور امت ہمیں اپنانے چاہئیں تھے وہ اپنائے نہ جا سکے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جو ایک زمانہ فشاں ہوا اور خلافت راشدہ میں اسلامی مملکت کی حدود توسیع پذیر ہوئیں'  اس وقت امتِ مسلمہ ہی میں نہ صرف نفاق و انتشار ہے بلکہ باہمی ناچاقیوں کی وجہ سے مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ مسلم ممالک ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے ہیں 57 اسلامی ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم پر موجود تو ہیں مگر نہ صرف متحد نہیں بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں اور فرقہ واریت کی لعنت نے مسلم برادرہڈ کے آفاقی جذبے کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کے اس انتشار اور دشمنی پر مبنی رویوں سے سامراج کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں آسانی ہو رہی ہے۔ وسائل اور افرادی قوت سے مسلم ممالک مالا مال ہیں۔ بہترین فوج کی بات کی جائے تو یہ اعزاز پاکستان کے پاس ہے جس کے فوجی دستوں نے اقوام متحدہ کے امن مشن میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں اور دنیا بھر میں اپنی مشاقی کی دھاک بٹھائی ہے۔ پاکستان ہی مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اسی طرح ترکی اور ایران کی افواج دنیا کی ماہر ترین افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ مسلم افواج کے پاس جذبہ شہادت ان کا طرہ امتیاز ہے مگر یہ سب کچھ ہوتے بھی غزہ کے مسلمان پس رہے ہیں' مسئلہ فلسطین و کشمیر حل ہونے میں نہیں آرہے اور آج مسلم دنیا کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں بھی شدّومد کے ساتھ ہو رہی ہیں جبکہ ہندو انتہائپسندوں کی نمائندہ آر ایس ایس کی ترجمان بھارت کی مودی سرکار نے مسلم دشمنی کی تمام حدیں عبور کرلی ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطے کے حصول کی جدوجہد اس خطے کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کیلئے کی تھی اور دو قومی نظریے کے تحت تشکیل پانے والے اس ملک خداداد کو محسن انسانیت ? کی تعلیمات اور ان پر قران مجید کی شکل میں نازل کئے گئے احکام خداوندی کی روشنی میں ایک مثالی اسلامی' فلاحی' جمہوری معاشرہ کے قالب میں ڈھالنا ہی مقصود تھا پاکستان کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کے نعرے لگائے میں کسی بھی حکمران نے کسر نہیں چھوڑی تاہم عمل میں کمزوری دکھائی ہے گفتار اور کردار و عمل میں موجود واضح تضاد کے باعث ہی  ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ نہیں بن سکا ہے قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا تھا کہ ہمارا دستور خدا وند کریم کی نازل کردہ الہامی کتاب قرآن مجید کی شکل میں پہلے سے موجود ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار پایا۔ ختم نبوت پر ایمان شریعت کا بنیادی تقاضا ہے۔ بے شک غیرمسلم اقلیتوں کو آئین کے تحت تمام حقوق حاصل ہیں مگر خود کو مسلمان ظاہر کرکے اس فتنے کا دوبارہ سر اٹھانا ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ ہمیں بہرصورت اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنا ہے اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آنچ نہ آنے دینا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ ہمیں اپنے دینِ کامل پر کاربند رہنے اور اپنے پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و تقدس پر کوئی ہلکی سی بھی آنچ نہ آنے دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے اور اپنے پیارے نبی کی امت ہونے کے ناطے ہم پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے رکھے۔ بقول علامہ اقبال، ذاتِ باری تعالیٰ کا یہی پیغام ہمارے لئے توشہ آخرت ہے کہجب ربِ رحمان نے اپنے ''حبیب۔ باعث تخلیق کائنات'' کو دنیا میں مبعوث فرمایا تو مشرق سے مغرب تک ہر شے۔ ہر ذرے کو نور حق سے روشن کر دیا۔ پہاڑوں کی بلند چوٹیاں چمک ا±ٹھیں۔ باطل۔ کفر کی ہر علامت۔ نشانی اندھیرے میں ڈوب گئی۔ درخت۔ پرندے خوشیوں سے حمد پڑھنے لگے۔ حمد و ثنا میں پتھر بھی پیچھے نہ رہے کیونکہ کائنات کو ایک عظیم الشان۔ بے مثل تحفہ عطا فرمایا جارہا تھا۔ایسا انمول۔ قیمتی گرانقدر ہستی تشریف لا رہی تھیں۔ جن کا رتبہ۔ عظمت بیان کرنے لگیں تو سو زندگیاں کم پڑ جائیں۔ پوری دنیا کی سیاہی۔ قلم ختم ہو جائیں مگر ایک حرف مدح ثنائی کا حق بھی ادا نہ کر سکے۔ ہمارے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ''اللہ تعالیٰ رحیم۔ کریم'' کے بعد حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ذی شان نے نزول مبارکہ کے پر سعادت لمحہ پر پورے عالم کو رحمت۔ روشنی سے تاباں کر دیا تو ''سفر معراج'' پر بھی اپنے محبوب کے استقبال پر ساتوں آسمانوں کو نور سے منور فرما رکھا تھا۔آج 12 ربیع الاول کا بیحد متبرک۔ مبارک دن ہے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام میں ''آمد مبارکہ'' کی تقاریب جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔''محمد عربی۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ''کو اللہ تعالیٰ کریم نے باطل کو مٹانے واسطے مبعوث فرمایا۔ حق سچ کے بول بالا کے لیے دنیا میں بھیجا۔ مدینہ والوں نے اطاعت کا حق ادا کر دیا۔ جانساری۔ خدمت گزاری اور اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنے سر کٹوا ڈالے۔ اِسی طرح رب کائنات کے آخری بنی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خالق کے احکامات۔ فرامین پر عمل در آمد میں جاں گسل لمحات۔ تکلیف دہ واقعات کو بھی سد راہِ نہ بننے دیا'یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت کی برکت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ختم المرسلینی صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے امت مسلمہ کو رب کریم کی طرف سے ایسی بے پایاں رحمتیں حاصل ہوئیں جن کی گنتی کرنے سے اعدادوشمار کے آلات قاصر ہیں۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے ''تم بہترین امت ہو''۔ یہ منفرد اعزاز بھی ختم نبوت کے مرہون منت ہے۔ آپؐ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت، راہ نمائی اور زندگی گزارنے کا پورا پورا سامان اور تعلیمات لے کر آئے جو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے مشعل راہ اور کامیابی وکامرانی کا معیار، زینہ اور ضامن ہیں امت پر آپ کے حقوق و فرائض میں آپ پر ایمان لانا، آپ سے محبت وعقیدت رکھنا، آپ کی تعظیم و توقیر، اطاعت وفرماں برداری اور آپ کی اتباع وپیروی شامل ہے۔ قرآن وحدیث میں ان حقوق وفرائض کی طرف امت کو مختلف انداز و اسلوب میں متوجہ کیا گیا ہے، صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حقوق کو اس طرح ادا کیا جیسے ان کو ادا کرنے کا حق تھا اور آپ پر ایمان،محبت وعقیدت کا اظہار، آپ کی تعظیم وتوقیر، اطاعت و فرمانبرداری او راتباع وپیروی اس طرح کی جس کی نظیر نہ ماضی میں تاریخ کے اوراق میں ملتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں مل سکے گی  ان کے ایمان وایقان، محبت و عشق و ایمانی جوش کی گواہی دینے پر غیر بھی مجبور تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود کفار کی طرف سے وکیل بن کر آئے اور حضرات صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال اوران کی آپ سے عقیدت ومحبت کا مشاہدہ کرتے رہے، جب وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس گئے تو ان سے کہنے لگے: اے میری قوم! اللہ رب العزت کی قسم! میں بڑے بڑے عظیم بادشاہوں کے دربا ر میں گیا ہوں، مجھے قیصر، کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہونے کا موقع ملا ہے لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں، جیسے محمدؐ کے اصحاب، محمد ؐکی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب، کسی نہ کسی شخص کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے اور اسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے، جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو بلاتوقف اس کی تعمیل کی جاتی ہے، جب وہ وضو کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لیے وہ ایک دوسرے سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے، آپ کے رفقائآپ کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو انتہائی پست رکھتے ہیں اور غایت تعظیم کی وجہ سے آپ کے چہرے کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھتے۔ (بخاری، مسند احمد) رسول اللہ سے محبت کرنا بھی ایمان کا جزو ہے اور محبت بھی ایسی جو انسان کے اپنے اہل و عیال بلکہ اپنے نفس پر بھی غالب ہو۔ حاصل یہ ہے کہ آپ کا حکم ہر مسلمان کے لیے اپنے ماں باپ سے زیادہ واجب التعمیل ہے، اگر ماں باپ آپ کے کسی حکم کے خلاف کہیں، ان کا کہنا ماننا جائز نہیں، اِسی طرح خود اپنے نفس کی تمام خواہشات پر بھی آپ کے حکم کی تعمیل مقدم ہے۔ (معارف القرآن) تمام صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم میں ایثار وقربانی اور جانثاری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا غرض جس بھی صحابی?کی زندگی کا مشاہدہ کیجیے وہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور اسوہ کا عکس جمیل اور آپ کے عشق ومحبت میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے،صحابہ کرامؓ کا یہ جذبہ، تڑپ، ایثار وقربانی، جانثاری اور اللہ کے نبی کے ساتھ عشق ومحبت ان کے دنیا و آخرت دونو ں جہانوں میں کامیابی وکامرانی کا ذریعہ بنی۔ دنیا میں بھی فوزو فلاح نے ان کے قدم چومے اور آخرت میں بھی وہ بلند درجات کے حامل ہوں گے۔ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر رسول اللہﷺکی اتباع وپیروی، اطاعت و فرمانبرداری، تعظیم اور عشق ومحبت کو اختیار کرکے دونوں جہانوں میں سرخروئی حاصل کرسکتے ہیں'حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 
یہ جہاں چیز ہے کیا' لوح و قلم تیرے ہیں

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...