آج ہمیں پنجاب پولیس ,پٹوار خانوں ,تھانوں کی اصلاح کی جتنی ضرورت ہے شاید اتنی پہلے کبھی نہ تھی ,سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر اداروں میں اصلاحات لانا ازحد ضروری ہے.عوام انہی اداروں میں انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے سالہا سال سے سفر کرتے آرہے ہیں .ماضی کی حکومت نے بڑی حد تک ان اداروں کی کارکردگی بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن جب ہم ان اداروں کو سیاسی طور پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو عوام کو یہاں سے کسی قسم کا ریلیف ملنے کے بجائے طاقتور لوگوں کو ناجائز سپورٹ ملنا شروع ہوجاتی ہے.اداروں کی تباہی کے ساتھ غریب عوام انہی اداروں کا چکر لگا لگا کر حصول انصاف کے لیے ذلیل وخوار ہوتی رہتی ہے.ہر دور حکومت میں جسطرح پنجاب پولیس کا ناجائز سیاسی استعمال کیا گیا اس سے پنجاب پولیس کی کارکردگی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی,بہرحال پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ کے قیام کی منظوری وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا نہ صرف قابل تعریف اقدام ہے بلکہ وفاق اور دوسروں صوبوں کیلئے قابل تقلید بھی ہے۔ صدیوں سے قائم فرسودہ نظام میں انصاف کی بروقت فراہمی اور عوامی مفادات کی پیش نظرجدت لانے پر پنجاب حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔انفورسمنٹ آفیسرز کیلئے خصوصی ٹریننگ کا اہتمام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت پنجاب محض خانہ پوری نہیں بلکہ پروفیشنلی ٹرینڈ اور ڈیڈیکیٹڈ افسران کے ساتھ انقلابی و فلاحی ویڑن کے ساتھ کام کرہی ہے۔
زمینوں کے بٹواروں اور دیگر فیصلوں پر عملدرآمد کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ پولیس کا سست رویہ ہوتا تھا۔ریونیو آفیسر یا عدالت کسی فریق کے حق میں فیصلہ تو دے دیتے تھے لیکن حقدار کو اس کا حق نہیں مل پاتا تھا۔زمین اور گھر کے قبضے کیلئے پولیس لیت و لیل سے کام لیتی تھی۔اکثر کیسز میں ایسا ہوتا تھا کہ پولیس جان بوجھ کر قبضہ دلوانے میں تاخیر کرتی اتنی دیر میں مخالف فریق مقامی عدالتوں سے حکم امتناعی لانے میں کامیاب ہوجاتا،یوں ریونیو افسران اور عدالتی فیصلے ردی کی ٹوکری کی نظر ہوکر رہ جاتے۔ ’’پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘‘کے قیام سے سب سے بڑی خوشخبری یہی ہے کہ کسی بھی فریق کے حق میں فیصلہ ہوتے ہی اسے فوری انصاف مل سکے گا۔آئے روز کے واقعات تھے کہ پولیس کے عدم تعاون کی وجہ سے اسسٹنٹ کمشنر اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کو ذخیرہ اندوز مافیا یرغمال کرلیتا تھا۔اسسٹنٹ کمشنر کی ذاتی فورس نہ ہونا تجاوزات کے خاتمے میں سب سے بڑی وجہ بن رہا تھا۔دیر آید درست آید کے مترادف’’پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘‘کا فیصلہ وقت کی اہم ضرورت تھی۔ انفورسمنٹ اتھارٹی سرکاری اراضی پر قبضوں سمیت دیگر سپیشل ٹاسک سرانجام دیں گی۔ اتھارٹی کو پرائس کنٹرول، سرکاری زمینوں پر قبضہ، تجاوزات اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی کے اختیارات ہوں گے۔ تحصیل کی سطح پر انفورسمنٹ سٹیشن قائم کیے جائیں گے۔ تحصیل انفورسمنٹ اتھارٹی میں یونٹ انچارج، انویسٹی گیشن آفیسرز، انفورسمنٹ آفیسرز اور کانسٹیبل تعینات ہوں گے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انفورسمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی مہنگائی کے خاتمے کے لئے مؤثر کردار ادا کرے گی۔اتھارٹی کو عوامی شکایات پر گرانفروشوں کے خلاف مؤثر کارروائی،قانون پر عملدرآمد، مقدمہ درج کرنے، تحقیقات اور گرفتاری کے اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔
قابل تعریف اقدام ہے کہ اضافی اخراجات سے بچنے کیلئے تجاوزات ہٹانے پر ہونے والے اخراجات بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں سے وصول کیے جائیں گے۔قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کیلئے واضح اور سٹرونگ پیغام ہے کہ مذید لاقانونیت نہیں۔ اتھارٹی کے قیام کا مقصد شہریوں کو سرکاری نرخوں پر اشیا کی فراہمی یقینی بنانا، ناجائز منافع خوروں اور زخیرہ اندروں سے بچانا بھی ہے۔پنجاب انفورسمنٹ اور ریگولیشن ایکٹ 2024 کے تحت مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور زمین کے انتظام سے متعلق خصوصی قوانین کے نفاذ کے لیے اتھارٹی کو کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز ایکٹ 1912، ذخیرہ اندوزی ایکٹ 2020 اور پنجاب پرائس کنٹرول آف ایسنشل کموڈیٹیز ایکٹ 2024 کے اختیارات حاصل ہونگے۔
بہت سارے پی ایس پی افسران پراپرٹی کے کام سے وابستہ ہیں، چور کی ڈارھی میں تنکا کے مترادف ’’پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ کے قیام پر پولیس نے شور مچانا شروع کردیا ہے۔کیونکہ اس اتھارٹی کے قیام سے زمینوں کے مسائل سمیت بہت سارے عوامی مسائل پولیس کے مرہون منت نہیں رہیں گے۔ مجوزہ اتھارٹی کو عملی جامعہ پہنانے کا اہم کردار چیئرمین پلاننگ اور ڈویلپمنٹ بورڈ نبیل اعوان نے پولیس کے اعتراضات کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے ’’پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ کے قیام کا دفاع کرتے ہوئی لوجیکل جواب دیا کہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ اور اینٹی کرپشن جیسے ادارے بھی نہ صرف ایف آئی آرکا اندراج کرتے ہیں بلکہ مشتبہ افراد کو حراست میں لیکر تفتیش کرتے ہیں۔سنئیر بیوروکریٹ نبیل اعوان کی بات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے بلاتاخیر اتھارٹی کے کام کو اپریشنل کرنا چاہئے۔یاد رہے کہ بنیادی طور پر یہ آئیڈیا سابق سنئیر ممبر بورڈ آف ریونیوپنجاب اور سنئیر بیوروکریٹ بابر حیات تاڑر کا تھا۔بابر حیات تاڑر ایک بااصول،محنتی اور ایکسٹراآرڈنری ذہین بیوروکریٹ ہیں۔بابر حیات تاڑر جیسے پریکٹیکل اور کام کرنے والے افسران نہ صرف سول سروس بلکہ پاکستان کا عظیم سرمایہ ہیں انکو وفاق یا پنجاب میں پوسٹنگ دے کرترقی کو پہیے لگائے جا سکتے ہیں۔پولیس کے تمام تر اعتراضات محض مفروضوں کی حد تک ہیں کیونکہ مجوزہ اتھارٹی میں پولیس کے کسی بھی قسم کے اختیارات نہ توختم کیے جارہے اور نہ ہی انفورسمنٹ اتھارٹی کو منتقل کیے جارہے ہیں۔اس لیے’’پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘‘کو پولیس کے مقابل فورس کہہ کر اس کو متنازع کرنے کی تمام تر کوششیں اور مہم جوئی‘‘میں نہیں مانوں گا‘‘والی بچگانہ حرکتیں ہیں۔ مجوزہ اتھارٹی تقریباً 10 جرائم سے نمٹے گی اور ان میں سے کسی بھی جرم کا تعلق اسٹریٹ کرائم سمیت پولیس متعلقہ جرائم سے نہیں ہے۔ پولیس کوچاہئے کہ پنجاب کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے اپنا اصل کام لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر کریں،بدقسمتی سے پولیس عوامی تحفظ اور امن و امان کے بنیادی فریضے کو بھول کر سوشل میڈیا پروجیکشن کے پیچھے ہلکان ہو کر ناصرف اختیارات سے تجاوز اور لاقانونیت کا مظاہرہ کررہی ہے بلکہ عوام کی حفاظت سے غفلت برت کر اپنے حلف کی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے۔پولیس کو چاہئے کہ سوشل میڈیا پروجیکشن اور جعلی ویڈیو سیشن کی بجائے تھانہ کلچر کی بہتری کی طرف توجہ دیں،جب عوام کو حقیقی انصاف اور امن میسر ہوگا تو عوام خود ہی پولیس کی تعریف کریں گے۔