بلاشبہ اسمگلنگ اور بھتہ خوری ملکی اقتصادیات کے لیے ناسورسے کم نہیں،جس نے ملکی معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ اور بھتہ خوری سے دہشت گرد تنظیموں کی فنانسنگ کا تخمینہ تیس ارب کے لگ بھگ ہے۔بلوچستان ایک مدت سے اندرونی وبیرونی دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہے، بلوچ قوم کے حقوق کا دعویٰ کرنے والی شدت پسند تنظیموں نے اس کے امن کو تباہ کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی۔ان دہشت گرد تنظیموں نے بلوچستان میں خون کی وہ ہولی کھیلی ہے کہ جس کی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف اندرونی اور بیرونی جنگ لڑ رہا ہے۔کسی بھی ملک کی معیشت کو دہشت گردی کی بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔یہ قیمت انسانی ہلاکتیں،زرمبادلہ کا نقصان،سرکاری وغیر سرکاری عمارتوں اور انفراسٹرکچر کو پہنچے والا نقصان،فیکٹریوں اور کھڑی فصلوں کا نقصان،اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ،سرمایہ کاری میں کمی،ترقیاتی کاموں کو آگے بڑھانے میں ناکامی،بے روزگاری اور دیگر کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔پاکستان نے دہشت گردی کی عفریت کو شکست دینے کے لیے بھاری قیمت ادا کی ہے، بڑی قربانیاں دی ہیں۔جس میں افسران،سیکورٹی فورسز کے جوانوں سمیت ہزاروں پاکستانی شہید ہوئے ہیں،جن میں ہماری مائیں،بہنیں،بزرگ اور بچے بھی شامل ہیں۔بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں نے عوام کے سامنے مسخ شدہ حقائق پیش کرکے انہیں ریاستی مظالم کی جھوٹی کہانیاں سنا کر ریاست کا باغی بنا یا۔تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ جن میں خواتین کی بھی کثیر تعداد شامل ہے قومیت اور نام نہاد آزادی پر ان کے ہاتھوں میں اسلحہ تھماکر فساد کو جہاد کا نام دے کر اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کاقتل کروایا،اور اپنے مالی وسائل کے لیے اغواء برائے تاوان،اسمگلنگ اور بھتہ خوری جیسے جرائم کو انجام دیا۔دہشت گردی،اسمگلنگ اور بھتہ خوری بظاہر تین مختلف درحقیقت باہم جڑے ہوئے جرائم ہیں۔یہ تینوں ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنتے ہیں۔دہشت گردی، اسمگلنگ اور بھتہ خوری کا ایک دوسرے سے گہرا واسطہ ہونے کے بارے میں یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ اسمگلنگ اور بھتہ خوری سے بڑے پیمانے پر رقوم حاصل کرتے ہوئے دہشت گردی کے لیے وسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔جن کا ایک بڑا حصہ دہشت گرد تنظیمیں تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے سہولت کاروں پر استعمال کرتی ہیں جو ان خوارج کو میڈیااور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے مجاہد بناکر پیش کرتے ہیں اوردوسری طرف ان دہشت گرد تنظیموں کی پراکسی بلوچ یک جہتی کمیٹی،ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ جیسے ملک دشمن ایجنٹ ان دہشت گردوں کو مسنگ پرسن بناکر منفی پراپیگنڈے کے ذریعے ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مسنگ پرسن کے نام پر کیے جانے والے احتجاج اور دھرنے دہشت گردوں کے بھرتی سنٹر ز ہیں جن میں لوگوں کی برین واشنگ کرکے انہیں جذباتی بناکر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اسمگلنگ اور بھتہ خوری سے حاصل ہونے والا پیسہ دہشت گردوں کی تربیت اور ہتھیاروں کی خریداری پر استعمال ہوتا ہے۔دہشت گرد اسمگلنگ اور بھتہ خوری کا مکروہ دھندہ کرنے کے لیے سیکورٹی فورسز،عام شہریوں اور سرکاری املاک کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ بدامنی پھیلی رہی اور یہ کھل کر ان جرائم کو انجام دے سکیں کیونکہ پرامن حالات میں ان جرائم کو انجام دینا ممکن نہیں ہوتا۔دہشت گردوں کااصل نشانہ بلوچستان کا امن اور خوشحالی ہے جس کو سبوتاڑ کرنے کے لیے بدامنی اور انتشار کو فروغ دیا جارہا ہے کیونکہ امن خوشحالی کو جنم دیتا ہے اور خوشحالی ترقی کو،بلوچستان کی ترقی ہی اس وقت دشمن ممالک کو ہضم نہیں ہورہی بالخصوص سی پیک منصوبہ جس کا فیز ٹو اس وقت تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔سی پیک منصوبے کی وجہ سے ’’گوادر‘‘ اس وقت عالمی نگاہوں کا مرکز بن چکا ہے،بلوچستان ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے،یہی وجہ ہے کہ جب سے سی پیک کا معاہدہ ہوا امریکہ اور بھارت اس پر اپنے شدید تحفظات ظاہر کرتے نظر آئے ہیں۔امریکہ کو علم ہے کہ سی پیک منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان داخلی طور پر مستحکم ہوگا بلکہ وہ اس کی دسترس اور اثر سے نکل جائے گا تو دوسری جانب چین کو بڑی اقتصادی قوت بننے سے روکا نہیں جاسکے گا جبکہ بھارت کی آنکھ میں سی پیک اس لیے کھٹک رہا ہے کہ وہ سمجھتاہے کہ نیوکلیئر پاور بننے کے بعد دفاعی حوالے سے وہ پاکستان کو چیلنج نہیں کرسکتا تو سی پیک پایہ تکمیل پر پہنچنے کے بعد پاکستان کی اہمیت وحیثیت بڑھے گی اور ترقی کی دوڑ میں وہ بھارت کو پیچھے چھوڑ دے گا،اسی لیے آج ملک دشمن عناصر ترقیاتی منصوبوں اور ان پر کام کرنے والی مشینری کو نقصان پہنچارہے ہیں،ٹھیکیداروں اور عام لوگوں سے زبردستی بھتہ وصول کرتے ہیں،انکار پر انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بلوچستان میں منشیات سمیت دیگر ممنوعہ اشیاء کی اسمگلنگ اور بھتہ خوری میں دہشت گرد تنظیمیں ملوث ہیں۔اسمگلنگ کے بارے شرعی حکم،اسمگلنگ کرنا اور اسمگلر سے سامان خریدنا دونوں کام ناجائز وگناہ ہیں۔امام اہل سنت احمد رضا خان ? فرماتے ہیں کہ ’’اسمگلنگ کرنا یا اسمگلنگ کا مال بیچنا اور خریدنا اس لیے ناجائز ہے کہ یہ ملک کے قانون کے خلاف ہے اور مسلمان کو خلاف قانون کوئی کام کرنا جائز اس لیے کہ خلاف قانون کوئی کام کرنے جب پکڑا جائے گا تو پہلے جھوٹ بولے گا،اگر جھوٹ سے کام نہ چلا تو تورشوت دے گا،رشوت سے بھی کام نہ چلا تو سزا ہوگی،جس سے اس کی بے عزتی ہے۔مسلمان کوئی ایسا کام ہی نہ کرے جس سے جھوٹ بولنا یارشوت دینا پڑے یا جس سے اس کی بے عزتی ہو‘‘۔دہشت گرد تنظیمیں لوگوں سے بزور طاقت پیسہ لیتی ہیں جیسے ’’بھتہ خوری‘‘کہا جاتا ہے۔شریعت میں بھتہ خوری کی سخت ممانعت اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔قرآن کریم میں ارشاد پاک ہے ’’اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کامال نہ کھاؤ‘‘باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے،جیسے سود،چوری،ڈاکہ زنی اور بھتہ خوری ہے یہ سبھی ناجائز اور باطل طریقے ہیں۔آج ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم دہشت گردی،اسمگلنگ اور بھتہ خوری کے خاتمے کے لیے ریاست اور ریاستی اداروں کا ساتھ دیں۔متحد ہوجائیں کیونکہ اتحاد کی طاقت سے بڑے سے بڑے دشمن کو شکست دی جاسکتی ہے یہ توپھر مٹھی بھر دہشت گرد ہیں۔