بلوچستان :احساسِ محرومی اور ریاستی جبر  ’’ بیا نیے کا پوسٹ مارٹم‘‘

مشعل برکْون" اپنی کتاب Apocalyptic Visions in Contemporary America کے صفحہ 6 پر لکھتا ہے کہ "مختلف سازشوں کا مقصد کسی مْلک، علاقے یا پوری دْنیا پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔" اسی طرح "آر سی ہکس" (کینڈین امریکی مْفکر) اپنی کتاب Postmodernism: Skepticism and Socialism from Rousseau to Foucault کے صفحہ 200 پر لکھتا ہے کہ کسی بھی ٹیکسٹ (جس سے بیانیہ بنایا جاتا ہے) کے ظاہر ی معنوں کو تبدیل کرکے اْس میں چْھپا فراڈ جانا جاسکتا ہے۔ ایک اور مْفکر "ٹیری ایگلٹن بلیک ویل" اپنی کتاب Literary Theory: An Introduction کے صفحہ 169 پر اسی فراڈ کو ظاہر کرنے کے لیئے لکھتا ہے کہ  جس ٹیکسٹ کے ذریعے علمی بحث کی جاتی ہے اْس میں بہت سارے تضاد ہوتے ہیں لیکن بظاہر یہ ٹیکسٹ پرفیکٹ اور نارمل نظر آتا ہے۔ پروفیسر دیوی تک کے حوالے سے صفحہ 168 پر لکھتا ہے کہ   "ڈسکورس اور بیانیہ" مضبوط تصوراتی تضادات کو جوڑ کر بنایا جاتا ہے۔ جس کے مطلب یہ ہے کہ دو متضاد تصوارت کو اکٹھا کردیا جاتا ہے۔" بظاہر یہ بات  بلوچستان کیس میں بڑی نارمل نظر آتی ہے کہ جہاں احساس محرومی ہو وہاں بغاوت ہوتی ہے اور جہاں بغاوت ہو وہاں ریاست طاقت استعمال کرتی ہے۔اوپر بیان کردہ ساری تحقیق کا سادہ لفظوں میں  نچوڑ یہ ہے کہ بلوچستان کے متعلق بیرون ممالک تیار کیا گیا بیانیہ "احساس محرومی اور ریاستی جبر "  میں "احساس محرومی" مظلومیت کی اور "ریاستی جبر" ظلم و ستم کی  جھوٹی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس سے قبل کہ ٹھوس دلائل، شواہد اور حقائق کے ساتھ پاکستانی ریاست کے خلاف اس بیانیے کا پوسٹ مارٹم کرکے اس کے پیچھے چْھپی قوتوں  اور اْن کے مقاصد کو ننگا کیا جائے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آج کا انسان بیانیہ کے دور میں زندہ ہے اور یہ بیانیہ میڈیا کے ذریعے پروموٹ ہوتا ہے اور دہشت گردی کی جنگ سے لیکر آجتک پاکستان مخالف  چند مغربی طاقتیں جن میں اْن کے جنوبی ایشیاء￿  میں اتحادی بھارت اور افغانستان کی کٹھ پْتلی حکومت بھی شامل ہیں ایک تسلسل کے خلاف پاکستان کے خلاف مختلف بیانیے بنا کر پاکستان کو کمزور کرنے اور اس میں انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اس سے وہ آخر حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اور بلوچستان میں ان کا یجنڈا کیا ہے؟ یہ دو سوال ہیں جن کے جوابات "احساس محرومی اور ریاستی جبر " کے بیانیے کے پیچھے چْھپے ہوئے ہیں۔جہاں تک "احساس محرومی"  کے رومانوں الفاظ کا کچا چٹھا تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی 5ستمبر کی پریس کانفرنس میںیہ کہہ کر کھول دیا کہ  اس سال بلوچستان کے  750 ارب  روپے کے بجٹ میں سے 520 ارب وفاق ( 70 فیصد )نے دیا، 254 ارب روپے  سالانہ کی بْنیاد پر  منافع  اور رائیلٹی   حکومت بلوچستان   کو ملی،  1997 میں بلوچستان  میں موجود  375 کلو میٹر  لمبی سڑک آج   25 ہزار کلومیٹر  اور   8 قومی شاہراہوں پر مْشتمل ہے۔ اسی طرح  تعلیم کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 73 ہزار  بلوچی بچے بچوں کا  سکالرشپ پر پاکستان اور بیرون ملک تعلیم حاصل کررہے ہیں،  کثیر تعداد میں  ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس، 13  کیڈٹ کالجز ، سی پیک، گوادر ایئر پورٹ جیسے  بڑے پراجیکٹس، خوشحال  بلوچستان  ، ڈیم و سولر پینل  جیسے منصوبوں،  اور  بلوچ سیاسی پارٹیوں  کی صوبائی اور وفاقی  سیاست میں شمولیت، 17  بلوچی وزیر اعلی، وزرائے اعظم، چیف جسٹس، چیئرمین سینٹ، اسپیکر قومی اسمبلی  اور عدلیہ، فوج اور  بیوروکرسی میں اعلٰی عہدوں کے ہوتے ہوئے احساسِ محرومی کی بات نامعقول لگتی ہے۔ لیویو نمر اپنی کتاب De-Contextualization in the Terrorism Discourse: A Social Constructionist View کے صفحہ 229 پر لکھتا ہے کہ " جانبدارنہ زبان استعمال کر کے جھوٹ پر مبنی علم کی  ایک عمارت کھڑی کرکے طاقت کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔" اسی طرح  ہینز برٹن اپنی کتاب Literary Theory: The Basics کے صفحہ 157 پر لکھتا ہے کہ  "جھوٹا علم دراصل طاقت کے حصول کا ایک ٹْول  (آلہ) ہے۔"   اب اگر  "احساس محرومی اورریاستی جبر " کے بیانیے  کا  تنقیدی جائزہ لیا جائے اور ڈی جی آئی ایس پی آر  کے  پریس کانفرنس دیئے گئے دلائل اور حقائق  سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ   بلوچستان کے عوام کا  "احساس محرومی" مخصوص مقاصد کے لیئے گھڑا گیا محض ایک افسانہ ہے۔   "سرفراز بْگٹی" نے ایک نجی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا کہ بطور وزیراعلٰی  بلوچستان  انہوں نے جو منصوبے اسٹارت کیئے ہیں اْن کی وجہ سے کْچھ لوگ انہیں ہٹانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ گویا بلوچ عوام اور پاکستان دْشمن نہیں چاہتیں کہ بلوچستان میں استحکام آئے۔  انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کی بدحالی کا کوئی ذمہ دار  اگر کوئی ہے تو وہ اس کی  بیڈ گورننس  ہے ناکہ  وسائل کی عدم دستیابی اور  سرفراز بْگٹی کا یہ کہنا بھی  اسی جھوٹے  بیانیے کی نفی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ بلوچ عوام کو مظلوم  اور پاکستانی ریاست کو جابر ثابت کرنے والی  پاکستان دْشمن طاقتوں کو جاننے کے لیئے  تین بین الاقوامی سیاسی  فریم (دو مْلکی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی کشمکش)  کا استعمال ناصرف بیرونی سازشیوں بلکہ اْن کے پاکستانی مہروں کو بھی مکمل ننگا کردیتا ہے۔ دومْلکی یا علاقائی  سیاسی چشمہ  لگا کر دیکھا جائے تو پاک بھارت  ازلی دْشمنی،  بھارت  افغان گٹھ جوڑ اور  ایران  کے ساتھ ساتھ  چند خلیجی ممالک  بھی گوادر پورٹ ہراجیکٹ کی کامیابی  اپنی بندرگاہوں کی بربادی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی طرح   بین الاقوامی لیول پر  پاک چین مْشترکہ پراجیکٹس (سی  پیک اور گوادر پورٹ)  امریکہ سمیت پوری مغربی دْنیا بھی اپنے لیئے خطرناک سمجھتی ہے۔محض چند ماہ قبل قائم ہونے والی بلوچستان کی صوبائی حکومت کو تبدیل کرکے بلوچستان  میں سیاسی  عدم استحکام  پیدا کرنے، سازشی  عناصر کا "احساس محرومی اور ریاستی جبر"  کے پراپیگنڈے  اور  بلوچستان میں  ایک بڑے پیمانے پر دہشت گرد کاروائیاں کیا بیرونی مدد کے بغیر مقامی  لوگوں کے لیئے ممکن ہے؟ جس کا صاف جواب "نہیں"  میں ہے اس کا مطلب ہے   اس کھیل  میں کئی ممالک شامل ہیں اور  یہ کھیل  بلوچ عوام کے حقوق کی بجائے  کسی اور ایجنڈے کے لیئے رچایا گیا ہے۔   بلوچستان تو  اس کھیل میں محض ایک  Tip of the Icebergہے۔

"احساس محرومی اور ریاستی جبر"  کے بیانیے سے احساس محرومی کو جب  الگ کیا جاتا تو ریاستی جبر کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے۔   دیگر صوبوں  اور بلوچستان کے عوام  کو  جھوٹے بیانیوں سے ورغلانے اور اکسانے والوں کو ہی مخاطب کرتے ہوئے  پاک فوج کے ترجمان نے  5 ستمبر کو  اپنی پریس کانفرنس میں یہ واضح کردیا تھا کہ  اس سارے نیٹ ورک کے دن گنے جا چْکے ہیں اور  ہر حال میں آخری دہشت گرد  اور اْن کے سہولتکار خواہ وہ زمینی کاروائیوں میں ملوث ہوں یا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے ڈیجیٹل دہشت گردی میں ملوث ہوں پاک فوج اْن کو کیفر کرادار پہنچانے تک آرام سے نہیں بیٹھے گی۔ اسی طرح سیاسی حکومت نے بھی انٹرنیٹ پر فائر وال انسٹال کرکے ڈیجیٹل دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ سن 2023 میں پاکستانی آرمی چیف کا دورہ چین اور پھر پچھلے ماہ  چین کے آرمی چیف کا دورہ پاکستان یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں ممالک ہر حال میں "سی  پیک اور گوادر پراجیکٹس" کو پایا تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کر چْکے ہیں اسی لیئے آجکل پاک فوج اور اْس کی  قیادت کے خلاف اندرونی و بیرونی پراپیگنڈا مشینری پورے زور شور سے چیخ چلا رہی ہے۔

میجر(ر) ساجد مسعود صادق 

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...