بلوچستان میں قوم پرست رہنمائوں کا قتل پورے پاکستان کے عوام کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس پر دوسرے صوبوں کا ردعمل بھی زیادہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی جو مرکز اور تین صوبوں میں حلیف ہے اس کی طرف سے بھی اس معاملہ پر موقف کھل کر سامنے نہیں آیا۔ وہ لوگ اس وقت بین الاقوامی سیاسی معاملات میں پاکستان کے کردار کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ان کے مہربان اور دوست ان کو خاطر میں نہیں لاتے اور ایسے اقدامات کر رہے ہیں جس سے عوام کا سرکار پر سے اعتماد اٹھتا ہی جا رہا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی سرکار کو کھل کر آزمانے کا فیصلہ کر رکھا ہے وہ سوات میں امن معاہدہ کے لئے کسی بھی طرح خوش نہیں ہے۔ پھر بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی کڑیاں بیک وقت بھارت اور امریکہ سے ملتی نظر آتی ہیں ان کے لوگ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں بدامنی کو فروغ دینے میں خصوصی کردار ادا کر رہے ہیں مگر ہمارے مشیر داخلہ ایسی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں وہ ان تمام معاملات کو مقامی طالبان سے جوڑتے ہیں شاید وہ اسی طرح سے اپنے مہربان اور حلیف دوست امریکہ کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے عدلیہ کو تین نومبر کی حیثیت میں قبول کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا اور ساتھ ہی بھٹو صاحب کے بارے میں عدالت عالیہ سے وضاحت چاہتے ہیں کہ وہ ایک عدالتی قتل تھا یا ایک ریاستی قتل۔ اس سلسلہ میں صدر پاکستان نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ہماری حلیف جماعتوں سے ہم آہنگی تھی کہ تمام صوبائی اسمبلیاں بھٹو صاحب کی سزائے موت کے فیصلہ پر قرارداد پیش کریں گی اور اس فیصلہ پر تحفظات کا اظہار کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں ان کا اشارہ خصوصاً پنجاب اسمبلی کی طرف تھا مگر ان کی خواہش ابھی تک پوری نہیں ہو سکی۔ وہ ایسی قرارداد پہلے سندھ‘ سرحد اور بلوچستان اسمبلی سے منظور کرواتے تو ان کی شکایت قابل توجہ ہوتی اس قسم کی قرارداد سے وہ تاریخ میں کیا درج کرانا چاہتے ہیں جبکہ تمام پاکستان کے عوام بھٹو صاحب کی شخصیت کو ایٹمی قوت کے تناظر میں خراج تحسین پیش کر چکے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کی خواہش ہے کہ ملک میں جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے۔ میثاق جمہوریت کے سلسلہ میں پیش رفت کی کوشش ہو رہی ہے۔ اگلے روز پنجاب کے صوبیدار شہباز شریف اپنے خاص لوگوں کے ساتھ وزیراعظم سے مکالمہ کے لئے گئے۔ وزیراعظم نے کمال مہربانی سے ان کا خوب سواگت بھی کیا۔ اس ملاقات میں وزیراعظم کے ساتھ امین فہیم کے علاوہ پانی بجلی کے وزیر اور وزیر انفارمیشن بھی نمایاں تھے۔ امین فہیم اس وقت سب سے آزمودہ پارٹی ورکر ہیں۔ وہ شریف برادران سے کچھ ناراض بھی تھے بلکہ وہ خواجہ آصف سے بدگمان ہیں کہ ان کے بارے میں سینٹ کے حالیہ چیئرمین نائیک کی باتوں پر اعتبار کر لیا جبکہ نائیک صاحب کو امین فہیم کے معاملہ پر زرداری صاحب سے رہنمائی حاصل تھی۔ اس ملاقات میں زرداری صاحب کی نمائندگی کون کر رہا تھا یہ ایک مشکل سوال ہے۔ کیا مسلم لیگ نواز گروپ حکومت میں شامل ہو گا ہو سکتا ہے کہ ہو جائے مگر کن شرائط پر اس کا جواب میثاق جمہوریت کے چارٹر کے اندر ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے عدلیہ کو تین نومبر کی حیثیت میں قبول کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا اور ساتھ ہی بھٹو صاحب کے بارے میں عدالت عالیہ سے وضاحت چاہتے ہیں کہ وہ ایک عدالتی قتل تھا یا ایک ریاستی قتل۔ اس سلسلہ میں صدر پاکستان نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ہماری حلیف جماعتوں سے ہم آہنگی تھی کہ تمام صوبائی اسمبلیاں بھٹو صاحب کی سزائے موت کے فیصلہ پر قرارداد پیش کریں گی اور اس فیصلہ پر تحفظات کا اظہار کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں ان کا اشارہ خصوصاً پنجاب اسمبلی کی طرف تھا مگر ان کی خواہش ابھی تک پوری نہیں ہو سکی۔ وہ ایسی قرارداد پہلے سندھ‘ سرحد اور بلوچستان اسمبلی سے منظور کرواتے تو ان کی شکایت قابل توجہ ہوتی اس قسم کی قرارداد سے وہ تاریخ میں کیا درج کرانا چاہتے ہیں جبکہ تمام پاکستان کے عوام بھٹو صاحب کی شخصیت کو ایٹمی قوت کے تناظر میں خراج تحسین پیش کر چکے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کی خواہش ہے کہ ملک میں جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے۔ میثاق جمہوریت کے سلسلہ میں پیش رفت کی کوشش ہو رہی ہے۔ اگلے روز پنجاب کے صوبیدار شہباز شریف اپنے خاص لوگوں کے ساتھ وزیراعظم سے مکالمہ کے لئے گئے۔ وزیراعظم نے کمال مہربانی سے ان کا خوب سواگت بھی کیا۔ اس ملاقات میں وزیراعظم کے ساتھ امین فہیم کے علاوہ پانی بجلی کے وزیر اور وزیر انفارمیشن بھی نمایاں تھے۔ امین فہیم اس وقت سب سے آزمودہ پارٹی ورکر ہیں۔ وہ شریف برادران سے کچھ ناراض بھی تھے بلکہ وہ خواجہ آصف سے بدگمان ہیں کہ ان کے بارے میں سینٹ کے حالیہ چیئرمین نائیک کی باتوں پر اعتبار کر لیا جبکہ نائیک صاحب کو امین فہیم کے معاملہ پر زرداری صاحب سے رہنمائی حاصل تھی۔ اس ملاقات میں زرداری صاحب کی نمائندگی کون کر رہا تھا یہ ایک مشکل سوال ہے۔ کیا مسلم لیگ نواز گروپ حکومت میں شامل ہو گا ہو سکتا ہے کہ ہو جائے مگر کن شرائط پر اس کا جواب میثاق جمہوریت کے چارٹر کے اندر ہے۔