پاکستان کیوں کیسے اور کس لئے؟ .... (۶)

Apr 17, 2013

ڈاکٹر حبیب الرحمان

دوسرا راز اس بات میں مضمر ہے کہ لوگوں کی عادات، جذبات اور طرز حیات میں خامیوں اور نقصانات میں اس قدر اضافہ کیا جائے اور شدید تر بنایا جائے کہ کوئی بھی اس انتشار اور افراتفری میں خود کو اکٹھا نہ کر سکے اور نتیجتاً لوگ اپنی باہمی ہم آہنگی کھو دینگے۔ یہ اقدام تمام گروہوں میں افتراق کو پروان چڑھانے میں بھی مدد دے گا اور ان مجتمع قوتوں کو بکھیرنے میں مدد دے گا جو ابھی تک ہمارے سامنے سر تسلیم خم کرنے کیلئے راضی نہیں اور یہ تدبیر ان تمام ذاتی اقدامات کی حوصلہ شکنی بھی کریگی جو کسی بھی طریق پر ہماری مہمات میں مداخلت کر سکتا ہے۔“ مذکورہ بالا دونوں حوالہ جات کو بغور پڑھنے کے بعد اب ہماری درج ذیل باتوں کو سمجھنا قارئین کیلئے انتہائی آسان ہو گا۔
غیر یقینی اور تشویش
پاکستانی میڈیا کے تمام ٹاک شوز کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو ہمیشہ بغیر نتیجہ بیان کئے متضاد آراءکے درمیان غلطاں و پیچاں چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ منتشرالخیال ہو کر غیر یقینیت کے صحرا میں بھٹکتے رہیں۔ جبکہ بحیثیت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے میڈیا کو چاہئے تھا کہ قوم پر حق و باطل، سچ اور جھوٹ کا فرق واضح کرتا تاکہ وہ اپنے شعبہ جات میں ملک و قوم کی ترقی کیلئے درست سمت کا تعین کرتے مگر تا حال ایں خیال است و محال است و جنوں۔
جھوٹ کی تشہیر، کتمان حق اور باطل کی آمیزش
میڈیا کے کردار پر دوسرا بدنما داغ جھوٹ کی تشہیر ہے جس کے ذریعے سیاہ کو سفید، سفید کو سیاہ، حق کو باطل، باطل کو حق، ظلمت کو نور اور نور کو ظلمت بتایا جاتا ہے۔ یہ کام اس قدر اخلاص اور پیشہ وارانہ مہارت سے کیا جاتا ہے کہ حق کو حق اور باطل کو باطل جاننا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے: ترجمہ:
”اور جب انکے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگرچہ وہ (بجائے شہرت دینے کے) اسے رسولﷺ اور اپنے میں سے صاحبان امر کی طرف لوٹا دیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں اس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے۔“ ایک اور مقام پر اللہ فرماتا ہے:
”اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاﺅ۔“
میڈیا کا ایک جرم کتمان حق بھی ہے۔ جرائم پیشہ افراد پاکستان بننے سے تاحال نامعلوم ہی ہیں جو شاید تا قیامت مجہول ہی رہیں گے۔ مسلمان دنیا کے احوال بتانے کے بجائے مغربی دنیا اور مشرکانہ تہذیب و تمدن سے قوم کو روشناس کروانا، دشمنان اسلام کی بربریت کو چھپا کر قوم کو اصل مسائل سے ہٹا کر غیر ضروری موضوعات میں الجھائے رکھنا یقیناً قومی جرم ہے۔
دوسروں کا مذاق اڑانا
اسلامی معاشرے میں اخوت اور بھائی چارے کو قائم رکھنے کیلئے اللہ اور اسکے رسولﷺ نے ایسے کاموں سے منع فرمایا ہے جو اہل ایمان کی باہمی محبت کو ختم کرنے کا سبب بنتے ہیں جیسے غیبت کرنا، چغلی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح اسلامی معاشرت میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور تحقیر کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: ترجمہ:
”اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ وہی عورتیں ان (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برانام ہے اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔“
یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ قرآن حکیم کے حکم برخلاف ہمارے مختلف ٹی وی چینلز پر اہل ایمان مردوں اور عورتوں کی تحقیر پر بہت سے پروگرامز نشر کئے جاتے ہیں جن میں اسلامی تعلیمات کے ساتھ بھی ہزل کیا جانے لگا ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ میڈیا میں اسلامی احکامات کو ”کالا“، پرانا، ناقابل عمل اور نعوذباللہ ”فساد کی بنیاد“ قرار دینے پر کبھی بھی توہین عدالت کی طرح ”توہین اسلام“ کا نوٹس نہیں دیا جاتا۔
جرائم کی تشہیر
قرآن کا حکم ہے کہ مجرم کا جرم جب شرعی تقاضوں کے مطابق ثابت ہو جائے تو اسے سب کے سامنے سزا دی جائے تاکہ دوسرے لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:
”بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (شرائط حد کے ساتھ جرم زنا کے ثابت ہوجانے پر) سو،سو کوڑے مارو اور تمہیں ان دونوں پر اللہ کے دین (کے حکم کے اجرائ) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو۔“جبکہ ہمارے میڈیا میں جرائم کی داستان سے متعلق متعدد پروگراموں دکھائے جاتے ہیں جس میں گناہوں کے طریقوں کو ازسر نو ڈرامائی انداز سے فلمایا جاتا ہے۔ جس کا بہت برا اثر بچوں اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پر پڑتا ہے۔ اس طرح وہ زنا، ڈیٹنگ، قتل، چوری، اغوا، ڈاکہ زنی، بے حیائی کے نئے طریقے سیکھتے ہیں۔ ان پروگرام میں مجرم کو سزا ملتے ہوئے بھی نہیں دکھایا جاتا جس سے اصلاح کا پہلو بھی مکمل معدوم ہو جاتا ہے۔ بعض پروگرامز کی بے اعتدالی اور تشہیر سے گناہ اس حد تک زیادہ ہو چکا ہے کہ ستر کے بجائے وہ زنا کرنیوالے مرد و عورتوں اور ہم جنس پرستوں کی جاسوسی کر کے ان کی فلمیں بناتے ہیں پھر انکے انٹرویوز نشر کرتے ہیں جس کی وجہ سے لاعلمی میں وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرکے خود پر گواہ قائم کر لیتے ہیں۔ ان پروگرامز اور رپورٹس میں اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے اور اشتہارات کی وصولی کیلئے ایسی معصوم لڑکیوں کے انٹریوز دکھائے جاتے ہیں جن کو کسی حیوان نما انسان نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہو۔ جس کی وجہ سے اس لڑکی اور اسکے والدین کو مزید بے عزت کیا جاتا ہے۔ بعض گھٹیا لوگ ان لاچار لڑکیوں کے عصمت دری کے دوران تارتار کئے جانیوالے لباس کو بھی ٹی وی اسکرین پر دکھاتے شرم محسوس نہیں کرتے۔
قنوطیت
ہمارے میڈیا کا ایک اور سنگین جرم قوم میں مایوسی اور قنوطیت پیدا کرنا ہے کیونکہ وہ قوم جو مایوس ہو چکی ہو دشمن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے۔ مصائب و آلام اور زوال کے اس وقت میں ان کو چاہئے تھا کہ قرآن حکیم کے اس اصول کے تحت عوام و خواص کی ذہن سازی کرتے:
”اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آﺅ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔“
یعنی ان میں اہل ایمان کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتے جو ان کیلئے دنیا اور آخرت میں علو اور کامیابی کا سبب ہے مگر وہ اسکے بجائے قوم کو مایوسی کے اندھیروں مں داخل کرکے مغربی الحاد اور مشرکانہ تہذیب میں نجات کا راستہ دکھا رہے ہیں۔
اشاعت فحاشی
ہمارے آزاد اور آوارہ میڈیا نے اظہار رائے کے ساتھ ساتھ ”اظہار جسم“ کی بھی بھرپور اجازت لے رکھی ہے۔ مسلم معاشرے میں ملکی و غیر ملکی بے حیائی، عریانیت اور فحاشی کے مناظر پر مبنی فلموں، ڈراموں اور اشتہارات کو خوب عام کیا جارہا ہے۔ ایسے وقت میں جب زنا سستا اور آسان ہو اور نکاح مہنگا اور مشکل ترین ہو، دن رات میڈیا پر مشتہر ہونے والے جنسی خواہشات کو مشتعل کرنے والے مناظر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو جنسی بے راہ روی میں مبتلا کر رہے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ:
”بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کیلئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔ اور اللہ (ایسے لوگوں کے عزائم کو) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“
ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی جنسی بے اعتدالی اور تشدد کے پھیلاﺅ میں میڈیا کا کردار بہت حد تک معاون ہے۔ اس پر مزید مستزادیہ کہ ہمارے ہاں مسئلہ کو مزید خراب کرنے کیلئے فحاشی کی تعریف پر بحث کرکے ذہنی تشویش میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ زنا اور ہم جنس پرستی کی قانونی اجازت کی حمایت میں پروگرامز کئے جاتے ہیں اور ایسے افراد جو چند ٹکوں کے عوض ان غلاظتوں کو سند جواز فراہم کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں انکی آراہ پیش کی جاتی ہیں تا کہ وہ نوجوان جو فحاشی کی رو میں بہتے چلے جا رہے ہیں ان کے ذہنوں سے شعور گناہ اور احساس زیاں بھی جاتا رہے اور ان کی توبہ کا دروازہ بھی بند ہوجائے۔
تہذیب و ثقافت
کسی معاشرے کی تہذیب و ثقافت پر اس کے عقائد، مذہب اور تعلیمات اثر انداز ہوتی ہیں۔ جیسے لباس میں اسلام نے کسی خاص طرز کو مشروع نہیں کیا بلکہ چند اصول وضع کردیئے جن کو ملحوظ رکھتے ہوئے دنیا کا کوئی بھی لباس زیب تن کیا جاسکتا ہے جیسے مرد، عورتوں کا اور عورت مردوں کا لباس نہ پہنے، ستر ڈھکا ہوا ہو، لباس اتنا چست نہ کہ اعضاءظاہر ہوتے ہوں، لباس اتنا باریک نہ ہو کہ عورتیں برہنہ نظر آئیں یا مردوں کا ستر ظاہر ہو، عورتیں حجاب کریں اور اپنی زینت کو نامحرم کے سامنے ظاہر نہ کریں، غیر مسلموں کے مذہبی شعار کو نہ اپنایا جائے وغیرہ۔ (جاری)

مزیدخبریں