62اور63کے خلاف واویلا کیوں؟

مکرمی! سیاسی پرندے جو انتخابی حلقوں پر اپنا تسلط رکھتے ہیں وہ اپنے گھونسلے تبدیل کررہے ہیں۔ایک طرف اقتدار کے متلاشی مختلف حیلے استعمال کرکے اسمبلیوں میں جانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری جانب سپریم کورٹ دونوں ایوانوں کو کرپٹ،نااہل اور جعل سازی کرنے والے چوروں،ڈاکوﺅں،بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز سے پاک کرنے کی جستجو میں ہے۔ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت آئین کے آرٹیکل 62اور63کے خلاف واویلا کیا جارہا ہے۔سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایسا کوئی بھی شخص جسے”بسم اللہ،کلمہ طیبہ،پاکستان کابانی کون،سورةاخلاص“جیسے بنیادی سوالات کے جوابات معلوم نہیں وہ کس بنیاد پر عوام کی نمائندگی کا دعویدارہے؟عوام سمجھتے ہیں کہ62اور63پر عملدرآمد ہی سے نظام کوتبدیل کرتے ہوئے نئے پڑھے لکھے اور محب وطن لوگوں کو اسمبلیوں میں لایا جاسکتا ہے۔ڈگری کی شرط پرویز مشرف نے اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت نافذ کی تھی جس کے نتیجے میں نواب زادہ نصراللہ خان،سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب اور سابق سفیر پاکستان برائے امریکہ عابدہ حسین جیسی شخصیات انتخابات سے باہر ہوگئیں ۔اگرچہ یہ ایک اچھا اقدام تھا جس سے نئے لوگوں کو پارلیمنٹ میں جانے کا موقع ملامگر بدقسمتی سے جونوجوان منتخب ہوئے وہ انہی لوگوں کے بیٹے،بیٹیا ں،بھتیجے اور بھتیجیاں ہی تھے۔یہ اقدامات انتخابی اصلاحات کے نام پر کیے گئے تھے مگر عوام کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔الیکشن 2013کے لئے دستورکی دفعہ62اور63لگائی گئی۔جس کے باعث کئی اہم سیاستدان نااہل قرار دئیے جاچکے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ کوجیل بھی جانا پڑا۔حدیث کا مفہوم ہے کہ”جو شخص شہادت زور(جھوٹی گواہی)دے اس سے تاحیات گواہی نہیں لی جاسکتی“لہٰذا سیاسی جماعتوں کی قیادت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے افراد کے خلاف تادیبی کاروائی کریں جودھوکہ دہی کے مجرم قرار پاچکے ہیں۔ُ(عمران الحق ،لاہور)

ای پیپر دی نیشن