سیاسی قائدین اور امیدوار خود بھی اپنی حفاظت کا خصوصی بندوبست کریں
صدر آصف علی زرداری نے قبائلی عمائدین پر زور دیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں تمام قبائل بڑھ چڑھ کر حصہ لیں‘ ہم نے بے نظیر بھٹو سمیت اپنی پارٹی کے متعدد کارکنوں کی قربانیاں دی ہیں۔ موت تو آنی جانی ہے‘ ہم موت سے نہیں ڈرتے۔ گزشتہ روز ایوان صدر اسلام آباد میں گرینڈ قبائلی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محسود اور آفریدی قبائل اپنے حالات خود بدلیں‘ ہمیں قبائلیوں کے ساتھ ملنے میں ہمیشہ فخر اور خوشی محسوس ہوئی ہے کیونکہ یہ بہادر لوگ ہیں اور انہی کی وجہ سے ہم دارالحکومت میں اچھی نیند سوتے ہیں۔ انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہؓ کا قول دہرایا کہ ”موت تو انسان کی زندگی کی محافظ ہے“ انکے بقول جمہوریت بحال ہونے کے بعد فاٹا کے عوام کیلئے ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ ہم فاٹا میں یونیورسٹیاں‘ کیڈٹ کالج اور میڈیکل کالج بنائیں گے۔ اس وقت جبکہ ملک کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال دن بدن ابتر ہو رہی ہے‘ صدر مملکت کا ایوان صدر میں گرینڈ قبائلی جرگہ طلب کرکے انہیں انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کیلئے قائل کرنا بلاشبہ ایک مستحسن اقدام ہے کیونکہ اس سے ان امن دشمن عناصر کو‘ جو اپنی مذموم کارروائیوں کے ذریعے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کا ایجنڈہ رکھتے ہیں‘ واضح پیغام جائیگا کہ انکی کوئی سازش انتخابی عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ کا باعث نہیں بن سکتی‘ اس لئے وہ اپنے عزائم سے خود ہی باز آجائیں۔ اس سے قبل نگران وزیراعظم میرہزار خان کھوسو نے بلوچستان کے تمام قوم پرست لیڈران کو انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لینے کی دعوت دی اور اس مقصد کیلئے ان سے ملاقاتیں بھی کیں جس کا مثبت نتیجہ سردار اخترمینگل کے انتخابات میں بھرپور شرکت کے اعلان کی صورت میں برآمد ہوا جبکہ ناراض بلوچ لیڈران کے سیاست کے قومی دھارے میں آنے سے وہاں اب امن و امان کی صورتحال بھی بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔ تاہم بدامنی کے ذریعے ملک کی سلامتی کے درپے شرپسند عناصر بدستور اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں اور گزشتہ روز بھی دہشت گردوں کی جانب سے خضدار میں مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر سردار ثناءاللہ زہری کے قافلے پر بم سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں سردار ثناءاللہ زہری کا بھائی‘ بیٹا اور بھتیجا جاں بحق اور قافلے میں شامل 30 کے قریب افراد زخمی ہو گئے۔ اسی طرح گزشتہ روز پشاور میں پیپلز پارٹی کے امیدوار ذوالفقار افغانی کے گھر پر حملہ کیا گیا۔ قبل ازیں خیبر پختونخوا میں اے این پی کے دو امیدواروں پر ایک ہی روز میں الگ الگ حملے کئے گئے جن میں ایک امیدوار جاں بحق اور دوسرے سمیت متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں آزاد امیدوار کے حامیوں پر حملہ کیا گیا جس میں دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔ حیدرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے صوبائی امیدوار کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا جا چکا ہے۔یہ صورتحال یقیناً تشویشناک ہے اور بالخصوص انتخابی عمل کے دوران تخریب کاری اور دہشت گردی کے ایسے واقعات انتخابی عمل کو متاثر کر سکتے ہیں اس لئے نگران حکومتوں کی اولین ترجیح اس وقت امن و امان کی صورتحال کنٹرول کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے تاکہ شیڈول کے مطابق انتخابات کا انعقاد یقینی ہو سکے اور جنہیں انتخابی عمل کے ذریعے جمہوریت کا تسلسل سوٹ نہیں کر رہا‘ انکے عزائم ناکام بنائے جا سکیں۔ صدر زرداری نے اس تناظر میں اپنی پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی جانی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے جس پرعزم انداز میں فاٹا اور دیگر علاقوں کے تمام قبائل کو انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کی دعوت دی ہے‘ وہ انتخابات کے بروقت انعقاد کے معاملہ میں یقیناً حوصلہ افزا صورتحال ہے۔ ملک کے چاہے جو بھی حالات ہوں‘ انتخابات کا عمل بہرصورت تکمیل کو پہنچنا چاہیے جس کیلئے انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی اور دینی جماعتوں کے قائدین خود پرعزم ہونگے تو انکے کارکنوں اور ووٹروں کے حوصلے بھی بلند رہیں گے۔ فروری 2008ءکے انتخابات سے قبل بھی دہشت گردی کی واردات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے المناک سانحہ سے انتخابی عمل کے تسلسل کے معاملہ میں غیریقینی کی فضا پیدا ہو گئی تھی اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے تو اس سانحہ کے پیش نظر مشرف آمریت کے زیر اہتمام ہونیوالے انتخابات کے بائیکاٹ کی تجویز پیش کردی تھی تاہم اس وقت بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے آصف علی زرداری نے معاملات کو سنبھالا اور انتخابات میں ہرصورت حصہ لینے کا اعلان کر دیا‘ نتیجتاً مقررہ شیڈول سے صرف ایک ماہ کی تاخیر سے 18 فروری 2008ءکو انتخابات کا انعقاد ممکن ہو گیا۔ اب بھی تمام جماعتیں اور انکے قائدین کسی بھی صورتحال میں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پرعزم رہیں گے تو ان کا یہ عزم امن اور جمہوریت دشمن عناصر کے عزائم ناکام بنا دیگا۔ تاہم موجودہ نازک صورتحال میں حکومتی ایجنسیوں اور انتظامی مشینری کو دہشت گردوں اور شرپسندوں کے عزائم کیخلاف ہمہ وقت مستعد رہنا چاہیے اور بالخصوص دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر موجود سیاسی قائدین اور انتخابی امیدواروں کی حفاظت کا انتظام بہتر بنانا چاہیے تاکہ کسی بڑے سانحہ کے نتیجہ میں ملک میں افراتفری کی فضا پیدا نہ ہو سکے۔ اس وقت چونکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا ہے‘ اس لئے امن دشمن عناصر کو اپنی مذموم کارروائیوں کیلئے اب زیادہ موقع مل سکتا ہے۔ اس تناظر میں سیاسی جماعتوں اور انکے قائدین کو بھی محتاط رہنا چاہیے اور سیکورٹی کی چیکنگ کے بغیر کسی بڑے پبلک مقام پر نہیں جانا چاہیے۔ گزشتہ روز خضدار میں سردار ثناءاللہ زہری کے قافلے پر حملے کے بعد تو اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور انکے امیدواران اپنی انتخابی مہم کو محدود کریں اور حفاظتی اقدامات کئے بغیر پبلک اجتماعات کا انتظام نہ کریں کیونکہ ایسے مقامات پر دہشت گردی کی صورت میں سیاسی قائدین اور امیدواروں کے ساتھ عام بے گناہ انسانوں کے بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اگر پولنگ کے دن تک قانون اور امن نافذ کرنیوالی ایجنسیاں پرعزم ہو کر خلوص نیت کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیں اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک پر کڑی نظر رکھیں تو دہشت گردوں کے وسیع پیمانے پر تباہی کے عزائم یقیناً ناکام بنائے جا سکتے ہیں۔ اس وقت مصلحت کا یہی تقاضا ہے کہ قومی سیاسی قائدین اور امیدواران دہشت گردوں کے سامنے خود کو تر نوالہ بنا کر پیش نہ کریں اور اپنی اپنی رابطہ عوام مہم محدود پیمانے پر فہم و بصیرت کے ساتھ چلائیں تاکہ مقررہ میعاد کے اندر انتخابی عمل کی تکمیل یقینی ہو سکے۔