راجستھان میں مرے ہوئے عقاب سے کیمرہ برآمد۔ پاکستان کی طرف سے جاسوسی کیلئے بھیجنے جانے کا امکان ہے: بھارت کی الزام تراشییورپ میں عام طور پر ایسے کیمرے پرندوں کی نقل و حمل اور انکے عادات و اطوار جاننے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو کم از کم جیوگرافک چینل ہی دیکھ لیں۔کیا بھارت والوں کو اتنا بھی علم نہیں۔ معلوم نہیں مہاراج کی بُدھی اس سمے کہاں کھو یا سو جاتی ہے جب اپنے پڑوسی پر الزام لگانے کا سوچتا ہے۔ حالانکہ خفیہ والے تو بال کی کھال اتار لیتے ہیں مگر برا ہو اس عدم اعتمادی کا بنا جانکاری کے مہاراج نے کہہ دیا کہ لگتا ہے پاکستان نے جاسوسی کیلئے بھیجا ہو گا۔ اسے کہتے ہیں....اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھیاندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھیبعد میں اگر یہ پتہ چلے کہ یہ عقاب تو خود بھارت سرکار ہی کے محکمہ وائلڈ لائف والوں کا تھا اور یہ کیمرہ انہوں نے عقابوں کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نہیں بلکہ پاکستان سے معلومات حاصل کرنے کیلئے اسکے ساتھ لگایا تھا تو کتنی شرمندگی ہو گی‘ اس لئے بہتر ہے کہ کسی پر الزام لگانے سے قبل اسکے بارے میں پہلے پوری طرح معلومات حاصل کرلی جائیں ۔ اس طرح انسان بعد میں ہونیوالی شرمندگی سے تو بچ جاتا ہے۔ ویسے ہمیں تو غصہ آ رہا ہے اس عقاب پر جو خود تو مر گیا مگر مرتے مرتے بھی ہمارے پڑوسی کو ایک جنجال میں ڈال گیا کہ وہ بیچارے بوکھلاکر پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کہیں یہ پاکستان کی شرارت تو نہیں جبکہ ....ان کو آتا ہے پیار پر غصہہم کو غصے پہ پیار آتا ہےہم تو اپنے پڑوس کی اس حرکت پر بھی مسکرا رہے ہیں۔٭....٭....٭....٭میٹرک کے امتحانات سندھ میں نقل مافیا کا راج عملے کا امتحانی مراکز میں جانے سے انکار۔ کھلے عام دھمکیاں مل رہی ہیں۔ پرچہ لینا مشکل ہو گیا ہے۔کہاں وہ دور تھا کہ علم کو ”مومن کی گمشدہ میراث“ کہا جاتا تھا۔ علم حاصل کرنے کیلئے چین تک جانے کے مشورے ملتے تھے اور مسلمان علم کی بدولت ترقی کی معراج پر تھے اور اب یہ دور آ گیا ہے علم کی پہلی سیڑھی یعنی میٹرک کے امتحانات میں نقل مافیا لنگوٹ کس کر میدان میں آ جاتا ہے‘ جو طالب علم پہلے ہی ہڑتالوں اور چھٹیوں کی وجہ سے بمشکل نصاب پڑھ پاتے ہیں اور تیاری کرکے امتحانی مراکز میں آتے ہیں ان کا وہاں خدا ہی مالک و حافظ ہوتا ہے۔ کیونکہ نکمے اور کام چور طالب علموں کی فوج ظفر موج انکے سامنے نقل مافیا کے تعاون سے ایسا کھیل رچاتی ہے کہ خود علم اور اس کا تقدس شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔بندروں کی طرح دیواروں پر اچھل اچھل کر کھڑکیوں سے کود کود کر یہ مخلوق جس طرح نقل کراتی نظر آتی ہے‘ کاش! وہ محنت بھی کرتے مگر وہ تو ....عاچھلو کودو نقل کراﺅ ‘ آیا ہے امتحان آہا آیا امتحانکی عملی تفسیر بنتے نظر آتے ہیں۔اسلحہ، دھونس، دھاندلی اور سیاسی دباﺅ نے پہلے ہی ہمارے نظام تعلیم کو تباہ کر دیا ہے۔ اب امتحانی مراکز میں ہونے والے اس ”نقل تماشہ“ نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں۔ پوچھ گچھ کرنے والا نہیں اور تو اور اب سرکاری امتحانی عملے نے بھی ان غنڈوں کے آگے ہتھیار دئیے ہیں اور ڈیوٹیاں دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ انہیں جان کا تحفظ درکار ہے۔ حکومت اگر اس حوالے سے بھی سخت اقدامات نہیں کر سکی تو پھر بوگس ڈگری نقد خریدنے والوں اور ان نام نہاد امتحانات میں پاس ہونیوالوں میں کیا فرق رہ جائیگا؟٭....٭....٭....٭ڈرون حملوں میں مولانا فضل الرحمن نے امریکہ کی ”بی ٹیم“ کا کردار ادا کیا ہے۔ مسرت شاہین۔ مزہ لیجئے اور دیکھئے ذرا شاہین کی نگاہِ تخیل اور بلند پروازی الیکشن میں مولانا فضل الرحمن کے مدمقابل مسرت شاہین ہیں تو الیکشن کا مزہ دوبالا کیوں نہ ہو۔ مولانا موصوف تو گذشتہ 5 سال حکومت کا بھرپور ساتھ دینے کے بعد اب الیکشن میں عوام سے ووٹ لینے کیلئے اسی اپنی مربی اور محسن ”زرداری حکومت“ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں مگر عوام کو یاد ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور انکی جماعت مرکزی حکومت میں بلوچستان اور سرحد کی صوبائی حکومتوں میں بھی پیپلز پارٹی کی حلیف تھی۔ اب تو مسرت شاہین صاحبہ کو موقع ملا ہے کہ وہ اپنے مدمقابل ”کبک“ پر شاہین بن کر جھپٹیں کیونکہ....پلٹ کر جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا”الیکشن“ گرم رکھنے کا ہے اک بہانہاب دیکھتے ہیں فضل الرحمن صاحب کس طرح اپنی کتاب کو انتخابی ہتھیار بنا کر اس شاہین کے خلاف اپنے بچاﺅ کیلئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ مولانا موصوف سے زیادہ کون کتاب کے بارے جانتا ہو گا اور انکی اس کتاب میں شاہین کو زیر دام لانے کیلئے بھی کئی نسخے درج ہونگے۔ ویسے بھی جس طرح انہوں نے ”زرداریوں“ کو دام میں پھنسانے کیلئے اپنے نسخے استعمال کئے اور حال ہی میں ان کا یہ ارشاد انکے اسی سیاسی داﺅ پیچ کی عکاسی کرتا ہے کہ ”ہمارے بغیر کوئی حکومت چل نہیں سکتی“ یعنی مولانا فضل الرحمن صاحب جانتے ہیں الیکشن میں جو کوئی بھی کامیاب ہوا مولانا اس حکومت میں اپنا حصہ لینے کیلئے تیار ہیں اسے کہتے ہیں پیش بینی۔ لگتا ہے مسرت شاہین صاحبہ اس سے محروم ہیں ورنہ وہ کبھی ایسے سدابہار ”حکومتی“ اپوزیشن انہی سے ٹکر نہ لیتی جو حکومت میں رہ کر بھی اپوزیشن اور اپوزیشن میں رہ کر حکومت کے مزے لوٹنا خوب جانتے ہیں۔