جمعرات ‘ 16؍ جمادی الثانی 1435ھ‘ 17 ؍ اپریل 2014ء

Apr 17, 2014

رسمِ حنا میں ون ڈش اور وقت کی پابندی نہ کرنے پر عمر اکمل کیخلاف مقدمہ !
لگتا ہے عمر اکمل کو میڈیا پر آنے کا شوق کچھ زیادہ ہی ہے اور پنجابی میں کہتے ہیں ناں ’’شوق دا کوئی مُل نئیں‘‘ اس لئے وہ آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کرتے ہیں جس کے سبب میڈیا پر ان کا تذکرہ یا چرچا ضرور ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘‘ اس حساب سے تو عمر اکمل نے یہ فن سیکھ لیا ہے لیکن وہ یہ محاورہ بھی یاد رکھیں تو بہتر ہے ’’کاٹھ کی ہنڈیا روز روز نہیں چڑھتی‘‘ اگر کسی دن حقیقت میں وہ کسی حقیقی قانون نافذ کرنے والے کے ہتھے چڑھ گئے تو بس پھر ’’ستے خیراں‘‘ اور بعد میں عمر اکمل ’’اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی‘‘ کا رونا رو رہے ہوں گے۔ اب انہیں یہ بچپنا ختم کر کے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اب تو خیر سے وہ شادی شدہ ہو گئے ہیں اور یہ کنواروں والی حرکتیں کھلنڈرے  لڑکوں  پر ہی سجتی ہیں جو سرِراہ پٹ بھی جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں البتہ اگر نئی نویلی دلہن کے سامنے کوئی ڈانٹ بھی دے تو بڑی سُبکی ہوتی ہے اور اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلتے اور فریقین میں دوبدو جنگ کا خدشہ حقیقی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ عمر اکمل تو ویسے ہی گرم مزاج ہیں اس لئے محتاط رہیں تو بہتر ہے ورنہ بیگم کیا کہے گی کہ یہ کس  بندے سے پالا پڑ گیا۔ قانون بنا ہی حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے ہے مگر ہمارے ہاں روایتاً سب اس کے اُلٹ چلتا ہے‘ اب یہ نہ ہو کہ بیگم عمر اکمل بھی انہی کی نقالی کی کوشش کرتے ہوئے بارات کی تقریب میں … ؎
پاویں ہووے لڑائی پاویں ہووے جھگڑا
میں تو ڈالوں گی آج ساری رات بھنگڑا
کی بڑھک لگا کر سارا منظر ہی بدل دے پھر میڈیا عمر اکمل کی بجائے عرصہ دراز تک بیگم عمر اکمل کو یاد کرے گا۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
سیف الرحمن چین سے ہونے والے بجلی معاہدوں میں اہم کردار ادا کریں گے!
یہ خبر پڑھ کر ہمیں جیسے بجلی کا جھٹکا سا لگ گیا کیونکہ احتساب بیورو کے سابق سربراہ سیف الرحمن کا نام سُنتے ہی ہمیں ماضی کا بدنام زمانہ سیف ہائوس یاد آ جاتا ہے جہاں حکومتی مخالفین کو ذہنی و جسمانی اذیتیں دی جاتی تھیں اور بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے تھے، ساری رات جلتے تیز بلب کے سامنے بٹھا کر سونے نہیں دیا جاتا تھا باقی اور بہت کچھ بھی ہوتا تھا جو قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ پھرنیرنگی زمانہ نے یہ بھی دکھایا کہ یہی سیف الرحمن  نواز حکومت کے خاتمے کے بعد زرداری کے پائوں پکڑ کر ان سے معافیاں مانگتے پائے گئے اور آج ایک مرتبہ پھر حکمرانوں کی نظروں میں ہیرو بننے  چلے ہیں جبکہ مشکل وقت میں یہ حضرت صرف اپنے آپ کو ’’سیف‘‘ کرتے رہے باقی سب جائیں بھاڑ میں۔ لگتا ہے ہمارے مغل اعظم نے بھی ان کی سابقہ لغزشوں کو معاف کر دیا ہے حالانکہ سیانے کہتے ہیں ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘ مگر لسی کے دیوانے ہمارے حکمران یہ کہاوت بھول چکے ہیں۔ ورنہ پہلے سے موجود نورتنوں میں خواجگان کے ہوتے ہوئے کیا ضرورت رہ گئی تھی کہ  انہیں بھی شامل کرلیا۔ اب دیکھنا ہے حضرت چین سے بجلی کے معاہدے کرکے عوام کو کونسا جھٹکا دیں گے۔باقی روشنی تو صرف حکمرانوں کے گھروں میں ہی ہوتی ہے۔ سیف الرحمن نے فرمایا ہے کہ وہ آجکل صرف بزنس مین ہیں ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں یہ تو بالکل ویسا ہی ہے جیسے مظفر ٹپی وزیر اعلیٰ نہ ہوتے ہوئے بھی اصل قائم علی شاہ ہے ۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
چوہے 70 سالہ زمیندار کی جمع پونجی 10 لاکھ کے نوٹ کُتر گئے !
اب بابا جی بیمار ہو کر بستر سے لگ گئے ہیں۔ اس لئے ہم ’’ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘ کہہ کر ان کے غم میں مزید اضافہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے جس مال کو عمر بھر چھپا کر رکھا وہ تو ویسے بھی اولاد نے بانٹ کر بالآخر کھا ہی جاناتھا مگر چوہے ذرا تیز نکلے اور انہوں نے اولاد کی لوٹ مار سے قبل ہی اس دولت پر اپنے دانت صاف کرلئے‘ اب بابے سے زیادہ دُکھ تو اصل میں اولاد کو ہونا چاہئے جنہوں نے بعد از قُل اسی مال و دولت سے بابے کی فاتحہ کا بندوبست بھی کرنا تھا اور وہ تو اب صرف ان کُترے ہوئے نوٹوں کی دل ہی دل میں فاتحہ پڑھ رہے ہوں گے۔ اندر دلوں کا کیا حال ہو گا وہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے مگر بقول فراز … ؎
ضبط لازم ہے مگر دُکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ رویا تو  وہ مر جائے گا
بہتر ہے کہ بابا جی اور ان کی آل اولاد صبر و شکر کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلی دیں اور بابا کو آخری عمر اکیلا بے یارو مددگار نہ چھوڑیں بلکہ جی جان سے اسکی خدمت کریں کیونکہ سونے کی اصل کان تو یہی بابا ہے جو دنیا میں نہ سہی آخرت میں اولاد کی راحت و آرام اور بخشش کا ذریعہ بن جائے گا اور کیا معلوم جو بابا 10 لاکھ ایک بوری میں جمع کر سکتا ہے اس نے سونا چاندی کسی دوسری بوری میں چھپا رکھے ہوں اب اس کو ڈھونڈنا اولاد کی ذہانت پر منحصر ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
ڈیرہ غازی خان میں بجلی کے کُنڈے اتارنے کیلئے جانے والی ٹیم کو بجلی چوروں نے یرغمال بنا لیا!
اب کیا فرماتے ہیں عابد شیر علی جو آئے روز صوبہ خیبر پی کے پر بجلی چوری کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں اور جواب آں غزل کے طور پر خیبر پی کے کے وزراء بھی بلا کسی تفریق کے انکے جواب میں تیز و طرار قسم کے ’’چپلی کباب‘‘ نما بیانات دے کر ماحول کو ٹھنڈا ہونے سے بچا لیتے ہیں اور بقول سید ضمیر جعفری … ؎
بیاں کے مقابل بیاں لڑ رہا ہے
حساب دلِ دوستاں لڑ رہا ہے
دونوں طرف کے عوامی نمائندے صرف بیان بازی سے اپنا زور دکھا رہے ہیں اگر یہ حقیقت میں عوام کی خدمت کیلئے مل جُل کر بجلی چوری جیسی لعنت کے خلاف مشترکہ ایکشن لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پورے پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کم نہ ہو اور غریب عوام کو ریلیف نہ ملے مگر ایسا وہ کر نہیں سکتے کیونکہ انہی بجلی چوروں سے انہوں نے الیکشن میں ووٹ لینا ہوتا ہے اور  اپنے ووٹروں کو وہ ناراض نہیں کر سکتے۔ اگر کہیں کبھی بھولے سے کوئی واپڈا کی ٹیم ’’کُنڈے‘‘ اتارنے کہیں چلی بھی جائے تو شہر ہو یا گائوں وہ ان کیلئے ’’علاقہ غیر‘‘ بن  جاتا ہے اور غریب صارف مل جُل کر اپنے ’’کُنڈے‘‘ بچانے کیلئے ٹیم کے ارکان کو نہ صرف یرغمال بنا لیتے ہیں ۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭

مزیدخبریں