خواتین سے درندگی کے واقعات میں اضافہ

 خواتین کے استحصال کے واقعات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ  روز درجن بھر اندوہناک واقعات میڈیا میں آئے۔ گجرات میں 14 سالہ لڑکی کی معذور شخص سے جبری شادی کی گئی۔ لڑکی کا کہنا ہے کہ اسے دو روز تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ کنگن پور میں 4 سالہ بچی کواوباش نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ بچی ہسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں ہے۔لاہور کے علاقے جنوبی چھائونی میں 22 سالہ لڑکی کو جعلی عامل نے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا اور حافظ آباد میں کانسٹیبل نے آٹھویں کی طالبہ سے درندگی کی۔ کوٹ سرور میں سر پھرے نوجوان نے زیادتی میں ناکامی کے بعد خاتون کے بالوں کو آگ لگا دی۔ تاندلیانوالہ میں ذہنی معذور 12 سالہ بچی سے درندگی کی گئی‘ اوکاڑہ میں دو لڑکیوں کو اغواء کے بعد زیادتی کی گئی۔ شرقپور‘ میانوالی میں لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی کی گئی۔یہ واقعات ایک روز میں ہوئے اور میڈیا میں آگئے۔  غیر رپورٹ شدہ واقعات کی تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ خواتین پر تشدد، ان کے استحصال اور زیادتی کے حوالے سے کئی قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل ہی نہیں ہوتا جس کے باعث معاشرہ جنگل کی تصویر بنا نظر آتا ہے جہاں کہیں زیادتی کا واقعہ ہوتا ہے حکمران وہاں مظلوم خواتین اور انکے والدین کی اشک شوئی کیلئے پہنچ کر مالی امداد کا اعلان کرتے ہیں۔ مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عزم دہرایاجاتا ہے لیکن نامعلوم ملزم پکڑے جاتے ہیں نہ نامزد ملزموں کو سزا ملنے کی خبر سننے اور پڑھنے میں آتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب گزشتہ روز ساہیوال میں زیادتی کا شکار ہونیوالی لڑکی کے گھر گئے اور طیش میں آکر کچھ پولیس والوں کو معطل کردیا جو چند دنوں بعد بحال ہوکر پرانی ڈگر پر ہی قانون کو چلائیں گے۔ اگر پولیس حکام نا اہل ہیں یا مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہیں تو سزا معطلی نہیں‘برطرفی ہے۔ اگر حکومت قانون کے مطابق درندگی کرنیوالوں کو سرعام سزائیں دے تو ہی خواتین کو تحفظ حاصل ہوسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...