کچی آبادی کیس کا فیصلہ محفوظ‘ لگتا ہے اداروں کی رٹ ختم ہو چکی، غیرقانونی کام بھی ختم نہیں کرا سکتے : اسلام آباد ہائیکورٹ

Apr 17, 2014

اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے کچی آبادی کیس کا فیصلہ محفوظ  کر تے ہو ئے وزارت داخلہ سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔ بدھ کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کچی آبادی کیس کی سماعت کی۔ آئی جی اسلام آباد‘ سیکرٹری داخلہ‘ چیئرمین سی ڈی اے اور چیف کمشنر اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت کے دورا ن  ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس عدالت میں کچی آباد ی کے بہت سے کیسز آرہے ہیں۔ ان لوگوں کا موقف ہے  ہمیں ریگولر کیا جائے اور حقوق دئیے جائیں جبکہ ان لوگوں کے پاس سی ڈی اے اور انتظامیہ کی طرف سے کوئی ریکارڈ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچی آبادیاں مکمل طور پر غیرقانونی ہیں۔ یہاں تک کہ دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر ان کچی آبادیوں کو تورا بورا اور سہراب گوٹھ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے اداروں کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔ وہ غیرقانونی کام بھی ختم نہیں کرواسکتے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ کچھ آبادیوں کا سروے مکمل کیا جاچکا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اداروں میں ایسے لوگ گھس جاتے ہیں جو غیرقانونی کام کرتے ہیں اور اداروں کو بدنام کرتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کی نیتیں ٹھیک ہوتیں تو یہ غیرقانونی بستیاں آباد نہ ہوتیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ عدالتوں کی وجہ سے کچھ بہتری آئی ہے۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کچی آبادیوں کو ختم کرایا جائے۔ عدالت نے کچی آبادیوں کے حوالے سے پہلے بھی فیصلہ جاری کررکھا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ جو لوگ غیرقانونی طور پر اسلام آباد کے ڈویلپڈ ایریاز میں آباد ہوچکے ہیں جب ان کیخلاف آپریشن کی تیاری شروع ہوتی ہے تو وہ ان لوگوں کے پاس جاتے ہیں جنہوں نے ان سے ووٹ لے رکھے ہیں۔ وزارت داخلہ ہی اس سارے معاملے کو ختم کرا سکتی ہے۔ عدالتوں نے قانون کے مطابق کام کرنا ہے۔ اگر ان غیرقانونی کچی آبادیوں کے مکینوں کو کسی متبادل جگہ پر آباد کرنا ہے تو یہ انتظامیہ اور سیاسی لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے چیف کمشنر‘ چیئرمین سی ڈی اے اور دیگر لوگوں کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ آپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس معاملے کو جلداز جلد حل کرایا جائے۔ عدالت نے سماعت 23 اپریل تک ملتوی کردی۔

مزیدخبریں