ماحولیات کی تباہی

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملک میں اشیاء خوردنی میں گرانی نہیں ہونی چاہئے۔ غذائی گرانی کا ایک سبب زرعی زمین کو کالونیوں میں بدلنا ہے اور ان کے اندر شہر قائم کرنا ہے۔ قانون کا تو یہ تقاضا ہے کہ شہری حدود قائم ہے اور اس سے آگے زرعی زمینیں شروع ہوتیں ہیں۔ اس شہری حدود سے آگے کوئی اربن حد نہیں ہوسکتی۔ ہم کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پیشتر یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتائج اس ملک کی آبادی پر کیا ہوںگے۔ وہ کہاں سے کھائیں گے ان کی غذائی اجناس کہاں سے پوری ہو گی۔ اللہ نے ہمیں سوئی گیس دی تو ہم نے بلاسوچے سمجھے جگہ جگہ سی این جی اسٹیشن بنا دئیے۔ اب حالات یہ ہیں کہ نہ تو ہم گھروں کو سوئی گیس مہیا کر سکتے ہیں نہ ہی ٹرانسپورٹ کو اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے زراعت کو فراموش کیا ہے۔ خریف کی دو بڑی فصلیں چاول اور کپاس اب مایوس کن ہیں ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہم نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنا ہے اور کاشتکاروں کو یہ تربیت دینی ہے کہ وہ فصلوں کو پولٹری فارم کو کپاس اور سبزیوں کو کس طرح بیماریوں سے محفوظ سکتے ہیں اور اپنی زراعت کو بہتر کر کے اسے عالمی منڈی کے نرخوں کے دوش بدوش لا سکتے ہیں حکومت خریداری کے نرخوں کا اعلا ن کرتی ہے اور اعلان شدہ قیمت خاصی تاخیر سے ادائیگی کرتی ہے۔ اس طرح کاشت کاری میں تاخیر ہوتی ہے۔ اور اندرون ملک چینی کی نرخوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اپنی آبپاشی کا نظام بہتر بنانے کے لئے اگلے پانچ سالوں تک ایک ارب ڈالر سالانہ کی سرمایہ کاری کرنا پڑے گی اور کھیت سے منڈی تک زرعی اشیاء کی ذخیرہ کاری اور چھوٹے کارخانون پر سرمایہ کاری سے بھی زراعت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ڈیری کی مصنوعات پر انتہائی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی فصلیں ، باجرہ، جوار، مرچ، مونگ، آلو، سبزیاں، اور تازہ پھلوں خصوصاً آم، سٹرس فروٹ، پیاز، آلو، لہسن، کی کاشت میں اضافے کی ضرورت ہے اور خادم پنجاب سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ زرعی زمینوں کو کالونیوں میں تبدیل کرنے سے روکنے کا آرڈیننس جلد جاری کرے اور بالخصوص آرچرڈ پھلوں کے باغات کو ختم کرنے اور کالونیوں میں تبدیل کرنے سے منع کرنے کا آرڈیننس بھی جاری کرے ورنہ پاکستان میں جیسے خدا نے حسین وادیاں ، لہلاتے کھیتوں والی زمینیں، سمندر، پہاڑ عطا کئے ہیں۔ گنگناتے چشمے ہیں۔ پھلوں اور پھولوں سے لدے ہوئے درخت ہیں تباہ ہو جائیں گے خداراہ انہیں تباہ مت کریں۔ ڈیفنس اور دیگر کالونیوں پر پابندی لگا دی جائے کہ مزید زرعی زمینوں کو پلاٹوں میں مت بدلیں۔ کسان کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دی جائے، پانی، بجلی ذخیرہ کاری ،کو ایک خاص سسٹم کے تحت بہتر سے بہتر بنایا جائے تاکہ پاکستان ترقی کر سکے۔ پاکستان کے 67 سال گزرنے کے بعد بھی ہم نے اس ملک کو جہاں خوبصورت پہاڑ، حسین و جمیل وادیاں اور انتہائی زرخیز زمین ہے جو سال میں چار فصلیں دیتی ہیں بجائے اس کے کہ ہم اس زرخیز زمین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے اور کسانوں کو بہتر سے بہتر مراعات دیتے تاکہ زراعت جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اس سے ہم اپنی پاکستان کی معیشت کو بہتر سے بہتر کرتے ہم نے ماضی میں کس بے دردی کے ساتھ لہلاتے کھیتوں کو ختم کرتے ہوئے انہیں رہائشی شہر کے اندر ٹائون اور کالونیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان رہائشی شہروں میں صرف امیر لوگ رہ سکتے ہیں۔ غریب آج بھی تنگ تاریک گلیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ رہائش گاہیں صرف امیر لوگوں کے لئے ہیں۔ لہلاتے ہوئے کھیتوں کو تباہ کرنے کا نتیجہ یہ کہ آج ہم پیاز اور ٹماٹر بھی باہر سے منگواتے ہیں جبکہ ہمارے ہمسائے ملک انڈیا نے کتنے ڈیم بنائے کسانوں کو بے انتہا مراعات دیں۔ بجلی کی کھپت کو سستا کیا اور یہ قانون بنایا کہ کوئی بھی زمیندار کسی بھی زرعی زمین کے ایک حصے کو نہیں بیچ سکتا۔ یہی وجہ کہ انڈیا کا چھوٹا سا پنجاب سو کروڑ لوگوں کو خوراک مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح ایران جو کبھی ہمسایہ ملکوں سے چاول اور گندم برآمد کرتا تھا نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ وہ اپنے ہمسایہ ملکوں کو بھی اشیاء خوردنی فروخت کرنے کے لئے تیار ہے یہاں سلسلہ ہی دوسرا ہے۔ پراپرٹی ڈیلروں نے جو کبھی معمولی سے کلرک تھے آج کھرب پتی بن گئے ہیں۔ غریب کسانوں سے سستی زمینیں لے کر انہیں نیست و نابود کر کے پلاٹوں میں تبدیل کر دیا اور چار فصلیں دینے والی زمینوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پتھروں میں بدل دیا۔
صرف لاہور کی مثال لے لیں۔ مغلوں کے دور میں یہ شہر اپنے ہریالی درختوں اور لہلہاتے کھیتوں کی وجہ سے مغل بادشاہوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ اپنے حسن و جمال کی وجہ سے یہ شہر باغات کا شہر تھا۔ آج لاہور شہر پتھروں میں تبدیل ہو گیا۔ آج غریب روٹی کپڑا اور مکان کے لئے ترس رہا ہے۔ اگر اسی طرح زمینیں برباد ہوتی رہی تو ایک وقت آئے گا کہ لوگ فاقہ کشی اور ننگ کا شکار ہو جائیں گے۔ خادم پنجاب کی خدمت میں گزارش ہے کہ اتنی بے دردی سے زرخیز اور لہلاتی فصلوں کو تباہ و برباد کرنے سے روکنے کے لئے انڈیا کی طرح آرڈیننس جاری کریں اور ملک کے چپے چپے پر فصلیں اور باغات اُگائے۔آج ہم اسی دنیا میں رہے ہیں جہاں انسانوں کی وجہ سے ماحولیات پر بڑے خطرناک اثرات پڑے رہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ بڑھ رہی ہیں۔ بہت جانور اور حشرات الارض کی نسلیں تباہ برباد ہو گئی ہیں اور دن بدن بہ دن یہ آلودگی ماحولیات پر اور انسانی زندگی پر برے اثرات چھوڑ رہی ہے اس کے مضمرات انسانوں کی زندگی ، سوسائٹیوں اور آب و ہوا کی انتہا پر ظاہر ہو رہیں ہیں۔ موسم تیزی سے بدل رہے ہیں آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔خادم پنجاب سے گزارش ہے کہ خدا را ہری بھری فصلوں کو ٹائون اور کالونیوں میں بدلنے سے روکیں۔ کسانوں کو مراعات دیں۔ بجلی پانی اور کھاد کی فراہمی کو سستا کریں اور انہیں کپاس کی فصل کے لئے اچھے سے اچھا بیج فراہم کریں۔ پاکستان کا حسن زراعت ہے۔ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے اور پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی زندگیاں بھی زراعت سے وابستہ ہیں۔ معیشت میں زراعت اور انڈسٹری ساتھ ساتھ چلتے ہیں ہم اسی کو بہتر کر لیں تو ترقی کے راستے پر چل سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن