رشوت اورکرپشن کا ناسور

رشوت اور سفارش ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہیں جنھوں نے ہمارے ملک کو آج ان حالات تک پہنچا دیا ہے کہ ادارے بجائے ترقی کرنے کے دن بہ دن اپنا معیار کھوتے جارہے ہیں. عوام کا ان پر سے اعتماد ہی ا±ٹھ گیا ہے. کوئی بھی ادارہ ہو ان دو ناسوروں(رشوت اور سفارش) سے پاک نہیں. تھانہ ہو یا واپڈا آفس ریلوے ہو یا پی آئی اے نااہل لوگوں نے لالچ کے مارے انھیں ناسوروں کو سیڑھی بناتے ہوئے بڑے بڑے عہدے حاصل کیے اور محکمے کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی. آج حال یہ ہے کہ اب ادارے پرائیویٹائزیشن کی طرف گامزن ہیں. کیونکہ حکومت کے لیے اب ان اداروں میں بہتری ممکن نہیں رہی. جہاں ایک طرف ملکی معیشت رشوت و سفارش کے چلن کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے وہیں اس سے ملک کے تعلیم یافتہ اور ہونہار نوجوانوں میں مایوسی کی شدید لہر نے سر ا±ٹھا یا ہے. ایک پڑھا لکھا نوجوان جب اخبار میں اشتہار دیکھ کر حصولِ ملازمت کے لیے کسی ادارے کا ر±خ کرتا ہے تو اسے تمام تر تعلیمی قابلیتوں اور مہارتوں کے باوجود محض اس بنا پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اس کے پاس اہلکاروں کو دینے کے لیے" رشوت" نہیں ہے اس کے بعد اگر وہ غریب کہیں سے مرے مارے اپنے بوڑھے ماں باپ کی جمع پونجی لے کر رشوت کا انتظام کر بھی لیتا ہے تو اب سفارش راستے کا پتھر بن کر سامنے آکھڑی ہوتی ہے. اب غریب آدمی کا سفارشی کون ہوسکتا ہے؟ نتیجتاً ا±سے sorry کہہ کر رخصت کردیا جاتا ہے اور پھر ان دونوں "خوبیوں" کے حامل ایک نااہل شخص کو نوکری مل جاتی ہے اور وہ اپنا رشوت کی صورت میں invest کیا ہوا پیسہ حلال حرام کی تمیز کیے بغیر اکٹھا کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس کا کئی گناہ وصول کرتا ہے, یوں ادارہ تو تباہ ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کا ایک تعلیم یافتہ محنتی نوجوان طبقہ بھی مایوسی کا شکار ہو کر منفی سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے. آئے روز کی خود کشیوں چوریوں اور ڈاکوں کے بڑے محرکات میں بے روزگاری سرِ فہرست ہے. ہم اکثر شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ملک کا پڑھا لکھا طبقہ عام طور پر اس میں رہنا یا یہاں نوکری کرنا پسند نہیں کرتا بلکہ بیرون ممالک میں رہنے اور نوکری کرنے کو ترجیح دیتا ہے. اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں کا رشوت اور سفارش زدہ کلچر انھیں یہاں رہنے نہیں دیتا. اداروں میں نااہل لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں جن کے پاس نہ تعلیم ہوتی ہے نہ تجربہ. جبکہ پروفیشنل اور اچھے ذہنوں کو ہم خود ہی مسترد کردیتے ہیں. اس طرح ہم خود اداروں کو نااہل لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں.ہم سب جانتے ہیں کہ مایوسی کفر ہے. مگر ایک نوجوان جس کا تعلق کسی ایم این اے، ایم پی اے سے نہیں کہ ان کی سفارش اس کے کسی کام آسکے ، جس کے پاس دینے کو پیسہ نہیں صرف ہ±نر ہی ہ±نر ہے (جس کی اس ملک میں کوئی قدر نہیں) اسے یہ بات سمجھانا بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ مایوسی کفر ہے. اسے ان حالات کے سدھار کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا. وہ جانتا ہے کہ اس ملک میں غریب غریب تر اور امیر کے امیر تر ہونے کا قانون لاگو ہے. لہٰذا ان حالات میں اس کوکون پوچھے گا. کون اس کی ڈگریاں دیکھے گا اورکون اس کے ٹیلنٹ کی قدر کرے گا؟ بوڑھے ماں باپ اپنا عمر بھر کاسرمایہ لگا کر اپنے بچے کو پڑھاتے ہیں کہ وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا. لیکن جب وہ اس بچے کو مایوس دیکھتے ہیں تو بستر سے لگ جاتے ہیں. انہیں یہ غم اندر ہی اندر کھاجاتا ہے. دوسری طرف نوجوان جسے اس کی قابلیت کے مطابق نوکری نہیں ملتی ایسے طلبا کے لیے نشانِ عبرت بن جاتا ہے جو اچھی جاب کے خواب آنکھوں میں لیے تعلیمی میدان میں محنت کررہے ہوتے ہیں اور ان میں بھی مایوسی پھیلنے لگتی ہے. ہمیں ان مسائل کا حل تلاش کر کے اس کا سد باب کرنے کی اشد ضرورت ہے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اداروں میں رشوت اور سفارش کا کلچر ختم کرکے بھرتیاں صرف اور صرف میرٹ پہ کی جائیں. اگرچہ کچھ اداروں میں حکومت کی طرف سے اب میرٹ کا خیال رکھا بھی جانے لگا ہے لیکن یہ اقدام ناکافی ہیں. ابھی بہت سا اصلاحی کام باقی ہے. اگر ہم اپنے ملک کو ایک خوشحال ملک کے طور پر ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے صرف اہل لوگوں کو اداروں میں آگے لانا ہوگا. بصورتِ دیگر ترقی یافتہ ملک کا خواب صرف دیوانے کا خواب کہلا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن