پشاور+ مردان (نوائے وقت رپورٹ+ نامہ نگار) مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشال خان کے قتل میں نامزد مزید ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا جس کے بعد گرفتار افراد کی تعداد 16 ہو گئی ہے۔ دوسری طرف پولیس نے گزشتہ روز مزید 7 ملزموں کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق پولیس ذرائع کے مطابق مشال کے سوشل میڈیا اکاﺅنٹ کی وفاقی تحقیقاتی ادارے سے تصدیق کرائی جائیگی۔ مشال کے موبائل کا ڈیٹا بھی حاصل کرکے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ چھ موبائل فونز اور سی سی ٹی وی کیمروں کو دوبارہ دیکھا جا رہا ہے۔ ویڈیو میں نظر آنے والے افراد کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ مزیدبراں پولیس نے مشال خان کی نمازجنازہ میں رکاوٹ ڈالنے اور نفرت انگیز تقاریر پر مقتول کے علاقے صوابی کے 2 علماءکے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہے۔ ان علماءپر الزام ہے کہ انہوں نے مشال کی نمازجنازہ روکنے کی کوشش کی۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے سے آئی جی نے ملاقات کی اور تحقیقات میں پیش رفت سے آگاہ کیا۔ پرویز خٹک نے تمام ملزمان کی گرفتاری اور تحقیقات جلد مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ علاوہ ازیں انسپکٹر جنرل خیبر پی کے صلاح الدین محسود کی زیرصدارت مشال قتل کیس کے حوالے سے ڈی آئی جی آفس مردان میں اہم اجلاس ہوا۔ ڈی آئی جی مردان اور ڈی پی او مردان نے آئی جی پی خیبر پختونخوا کو مشال قتل کیس کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی جس میں بتایا گیا کہ نامزد ملزمان میں سے متعدد ملزمان گرفتار کئے جا چکے ہیں اور تفتیش میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ چند گرفتاریوں اور سوالات کے علاوہ زیادہ تر معلومات عیاں ہو گئی ہیں۔ پولیس نے افسران کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ باقی ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنایا جائے اور غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات کی جائے اور جلد از جلد تفتیش کو مکمل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کا اطلاق اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ میٹنگ چار گھنٹے تک جاری رہی۔ دوسری طرف پولیس نے نامزد مزید 7 ملزمان کا انسداد دہشت گردی عدالت سے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا۔ 8 دیگر گرفتار ملزمان 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ڈی پی او مردان ڈاکٹر میاں سعید احمد کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے جتنے افراد کی نشاندہی ہوگی‘ ان کے نام ایف آئی آر میں درج کئے جائیں گے جبکہ ملزمان کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج سے مزید 11 ملزمان کی نشاندہی ہوئی ہے جنہیں گرفتار کرنے کیلئے چھاپے مارے جائیںگے۔ مردان کے ضلعی ناظم حمایت اللہ مایار نے انتباہ کیا ہے کہ مشال قتل کیس میں پولیس بے گناہ افراد کو حراست میں نہ لے۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کی ذمہ داری اب ضلعی انتظامیہ یا ناظمین کے پاس نہیں بلکہ ضلعی پولیس افسر کے پاس ہے۔ کوشش کر رہے ہیں کہ یونیورسٹی بھی جلد از جلد دوبارہ کھولی جائے۔ مشال خان کے والد اقبال جان نے کہا ہے کہ ان کا بیٹا بہت ہی صابر شخصیت کا مالک تھا۔ کتابوں اور قلم سے لگاﺅ تھا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشال ایک بہت ہی اچھا طالبعلم تھا اور وہ پورے دن میں 16 گھنٹے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو دیتا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ تعلیم ہی وہ واحد چیز ہے جو انسان کو غلط راستوںپر جانے سے روک سکتی ہے۔ مشال کے والد نے بتایا کہ ان کے بیٹے کا تعلیم سے لگاﺅ اس قدر تھا کہ وہ اس کیلئے روس بھی گیا جبکہ وہاں سے آکر اس نے صحافت کے شعبے کو اختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے پر جو الزام عائد کیا گیا وہ 100 فیصد غلط ہے کیونکہ وہ ایسا شخص تھا جو نظام پر بات کرتے ہوئے پیغمبر اور حصرت عمرؓ کا حوالے دیا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جو کھیل اس کی یونیورسٹی میں کھیلا گیا اور اس پر الزام عائد کیا گیا وہ خود بھی اس بارے میں پہلے سے نہیں جانتا تھا کیونکہ آج تک اس نے ایسے کسی مسئلے کا مجھ سے تذکرہ نہیں کیا تھا۔ اگر اس نے کسی جگہ پر کسی چیز کو درست کرنے کی بات کی تو وہ کوئی گناہ نہیں کیونکہ اس کا حق ہر ایک کو ہوتا ہے۔ اقبال جان نے کہا کہ اگرچہ میرا مشال اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے‘ لیکن میں اسی لئے دل برداشتہ نہیں ہوں کیونکہ میرے ملک کے ہر گھر میں ایک مشال موجود ہے اور ہمیں اس معاشرے سے اس طرح کے واقعات کو ختم کرکے پیار و محبت کی فضا پیدا کرنی ہے۔
مشاق قتل کیس
مشال قتل مزید ایک ملزم گرفتار نمازجنازہ میں رکاوٹ ڈالنے 2 علماءکے خلاف تحقیقات
Apr 17, 2017