اسلام آباد (جاوید صدیق) پاکستان میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زاخیل وال نے کہا ہے کہ یہ الزام کہ افغانستان بھارت کے زیراثر پاکستان مخالف پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے یہ افغان قوم کی توہین ہے۔ افغانستان اپنی خارجہ‘ امور سلامتی اور معیشت کے حوالے سے پالیسیاں اپنے قومی مفاد میں بناتا ہے۔ افغانستان کبھی بھارت کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ’’وقت نیوز‘‘ کے پروگرام ’’ایمبیسی روڈ‘‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے افغان سفیر نے کہا کہ افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی نے اقتدار میں آنے کے چند ہفتوں بعد پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ وہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات چاہتے تھے۔ بعض افغان حلقوں نے صدر غنی کو مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کا دورہ نہ کریں آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ لیکن صدر اشرف غنی نے اپنی سیاسی ساکھ داؤ پر لگاتے ہوئے پاکستان کا دورہ کیا۔ افغان سفیر نے بتایا کہ افغان صدر نے میری تجویز پر جی ایچ کیو کا دورہ کیا تھا لیکن اس دورے کے جواب میں انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ افغان سفیر سے استفسار کیا گیا کہ پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی پاکستان میں میزبانی کی تھی یہ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں امن اور استحکام کی طرف ایک اہم پیش رفت تھی جس پر افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیل وال نے جو افغانستان کے وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں بتایا کہ پاکستان جن طالبان لیڈروں کو مذاکرات کی میز پر لایا وہ درمیانے درجے کے لیڈر تھے۔ وہ صف اول کے لیڈر نہیں تھے۔ افغان سفیر سے پوچھا گیا کہ پاکستان کو تشویش ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہی ہے جس پر افغان سفیر نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے مطالبہ پر قاری یٰسین کو ہلاک کیا۔ عمر نارے بھی پاکستان کو مطلوب تھے جسے مارا گیا۔ آئی ایس کے لیڈر حافظ سعید کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ افغان سفیر سے پوچھا گیا کہ پاکستان عرصہ سے ملا فضل اﷲ کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جس پر افغان سفیر نے کہا کہ ملا فضل اﷲ کوئی بیٹھی ہوئی بطخ نہیں ہے۔ ہم ملا فضل اﷲ کے خلاف مشترکہ کارروائی کر سکتے ہیں لیکن وہ عناصر جو پاکستان میں گھوم پھر رہے ہیں اور افغانستان کے اندر کارروائیاں کر رہے ہیں انہیں بھی افغانستان کے حوالے کیا جانا چاہئے۔ افغان سفیر سے پوچھا گیا کہ کیا پاک افغان سرحد پر کشیدگی ختم ہو گئی ہے تو انہوں نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر کشیدگی دونوں ملکوں کے مفاد کے خلاف ہے۔ دونوں ملکوں کے صدیوں پرانے رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ تجارت متاثر ہوتی ہے۔ افغان سفیر نے دعویٰ کیا کہ پانچ سال پہلے پاکستان کی افغانستان کو برآمدات سالانہ پانچ ارب ڈالر تھیں جو تعلقات کی خرابی اور سرحدی کشیدگی کی وجہ سے اب ڈیڑھ ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ پاکستان کی جگہ اب ایران نے افغان مارکیٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ ایران افغانستان کو پانچ سال سے دو سو ملین ڈالر کی اشیاء برآمد کرتا تھا اب وہ 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی اشیاء افغانستان کو برآمد کرتا ہے۔ افغان سفیر نے کہا کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان فضائی سفر چالیس منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔ ہمارے درمیان ہفتہ وار نہیں تو سالانہ بنیادوں پر سیاسی‘ تجارتی اور پارلیمانی وفود کا تبادلہ ہونا چاہئے۔ افغان سفیر سے پوچھا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیوں کا موجودہ دور کب ختم ہو گا تو افغان سفیر نے کہا کہ 2017 ء پاک افغان تعلقات کے حوالے سے اچھی خبروں کا سال ہے۔ ہمارے تعلقات میں سرد مہری ختم ہونے والی ہے۔ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے پس پردہ کوششیں جاری ہیں۔
فضل اﷲبیٹھی بطخ نہیں مشترکہ کارروائی کرسکتے ہیں :افغانستان سفیر
Apr 17, 2017