دو ہفتے قبل اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ قومی بچت میں سرمایہ کو بڑھا نے اور بجٹ خسارے کو کم سے کم رکھنے کی غرض سے وزیر اعظم کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے نیشنل سیونگز کو نئی ’’پراڈکٹس‘‘ شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ ہدایت اس اجلاس میں کی گئی جس میں ڈائریکٹر جنرل نیشنل سیونگز نے مشیر خزانہ کو اپنے ادارے کی کارکردگی اور مختلف بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔ سرکاری بچت اسکیموں کو اس لحاظ سے دوسری اسکیموں پر فوقیت حاصل ہے کہ انہیں حکومت تحفظ دیتی ہے۔ اسکیموں پر معیّنہ شرح سے بروقت’’منافع‘‘ حاصل کرنے کے علاوہ ان میں رقوم جمع کرانے والوں کو یہ ذہنی اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے کہ ان کا پیسہ حکومت کے ترقیاتی منصوبوں میں لگا یا جاتا ہے اور اس طرح وہ معاشی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ان ’’سرمایہ کاروں ‘‘ میں بیشتر درمیانی آمدنی والے ضعیف لوگ یا ریٹائرڈ پنیشنرز ہیں جو اکثر نیشنل سیونگز کے دفاتر کھلنے سے پہلے ہی دروازے پر باہر قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد پینشن اور ’’بہبود ‘‘سرٹیفیکیٹس میں رقم جمع کراتی ہے جن میں ’’منافع‘‘ کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ ان کے لیے یہ دو اسکیمیں نعمت سے کم نہیں۔ ہم اپنے ایک گذشتہ (انگریزی) کالم میں یہ لکھ چکے ہیں کہ سرکاری شعبوں کے تمام اداروں کے مقابلے میں نیشنل سیونگز کے مقامی مراکز کی کارکردگی قابلِ رشک ہے۔ اس کے افسران اور اراکینِ عملہ وقت کی پابندی کرتے ہیں اور ڈیوٹی پر آنے کے بعد اخبار بینی یا ’’چائے پینی‘‘ جیسے مشغلوںمیں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔
ان لوگوں کی جانفشانی اورا حساسِ ذمے داری کوبھی کھاتے داروں کو اس طرف راغب کرنے میںبہت دخل ہے۔ اب اس ڈرامے کا ’’ایکٹ ٹُو‘‘ ملاحظہ فرمائیے ۔ مفتاح اسماعیل صاحب کی ہدایت پر فوری عمل ہوا اور یہ خبر یں آئیں کہ حکومت آئندہ مالی سال 2018-19)ء (کے وفاقی بجٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے اوورسیزسیونگزسرٹیفیکیٹس اور شریعہ بونڈ سمیت مزید تین بچت اسکیمیں متعارف کرائے گی۔ اس کے علاوہ معذور اور شہدا کے خاندانوں کو بھی بہبود سیونگزسرٹیفیکیٹس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے ، ان اسکیموں کا بنیادی مقصد ترسیلات زر کو بڑھا نا اور ملک کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے از خود وسائل پیدا کرنا ہے۔ ان اقدامات کی بھی تعریف کی جائے گی اس لیے کہ ان کے نتیجے میں پاکستان آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے ’’معاشی عِفریتوں‘‘کوٹھینگادکھانے کے قابل ہوجائے گا۔
۔قومی بچت کے ادارے نے ایک اچھا قدم یہ بھی اٹھایا کہ سیونگز سینٹرز کو بینک کا درجہ دے دیا جس کے بعد کھاتوں میں رقوم ڈالنا اور نکالنا بہت آسان ہوگیا ہے۔
یہ سب اپنی جگہ۔لیکن اب ’’ایکٹ تھری‘‘دیکھیے،نیشنل سیونگز کی ڈائریکٹوریٹ جنرل واقع اسلام آباد سے حال ہی میں ہدایات جاری ہوئی ہیں کہ بچت فارموںپر نامزدگی کے قواعدتبدیل کردیے گئے ہیں جن کے مطابق سرمایہ کاری فارم میں نامزدگی کا فارم عملاً بے معنی ہوجاتا ہے۔موجودہ قواعد کی رُوسے کھاتے دار کی وفات کی صورت میں اس کی جمع شدہ رقم اُن ورثا کو اُس شرح سے ادا کردی جاتی ہے جو اس نے فارم میں ظاہر کرکے اپنے دستخط ثبت کیے تھے۔اب پانچ لاکھ روپے تک (یہ بھی کوئی رقم ہوئی؟)چھوڑنے والے مرحوم کے ورثا کو تو فارم میں بیان کردہ نامزدگی کے مطابق ادائیگی کی جائے گی جبکہ اس سے زیادہ جمع شدہ رقم کے ورثا کو عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گیا کہ وہ وراثت کے تصدیق نامے حاصل کرکے رقم وصول کریں۔ہم اس ضمن میں اپنے موقف کا مختصر اظہار اپنی ای میل مورخہ 25مارچ بنام ڈ ی جی نیشنل سیونگز کے ذریعے پہلے ہی کرچکے ہیں۔ اس کالم میں نئے متعارف کرائے جانے والے قواعد کے منفی اثرات کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ اب ورثا کو اپنے پیاروں کی چھوڑی ہوئی رقوم کی وصولی کے لیے عدالتوں پر انحصار ہوگا۔ عدالتوں کی رفتار ِکار کا اندازہ ایک حالیہ خبر سے ہوتا ہے جس کے مطا بق چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک، سوسالہ قدیم مقدمے کا فیصلہ بالآخر سنادیا۔یہ ایک وراثت کا مقدمہ تھا۔اس’’ شاہکار‘‘فیصلے کا خلاصہ یہ تھا کہ مرحوم،ولد مرحوم،ولدمرحوم،ولد مرحوم(جتنے چاہیں’’مرحوم‘‘ لگالیں)کی چھوڑی ہوئی جائیداد اس کے ورثا کے ورثا کے ورثا...الخ میں شریعت کے اصولوں کے تحت تقسیم ہوگی۔
اب قومی بچت کے کھاتے داراپنے ورثا کا بھی یہی حال ذ ہن میں لائیں گے تو وہ اس میںسے پیسے نکالنے لگیں گے۔ شاید اتنی سی بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ بچت اور ٹیکس کا نظام جتنا سہل ہوگا ، حکومت کی آمدنی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ پاکستان کے عالمی شہرت کے ماہرمعاشیات اور جنوبی کوریا کی معیشت کے معمار ڈاکٹر محبوب الحق (مرحوم) نے اپنی معرکہ آرا کتاب ( The Poerty Curtain) میں لکھا تھا’’پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ لوگوں کے لیے ادائیگی (Payment) مشکل اور چوری (Evasion) آسان ہے جبکہ اس کے برعکس ہونا چاہیے۔‘‘بچت کی نئی اسکیمیں اپنی جگہ خوش آئند، لیکن ہمارے حکام پرانی کو توڈوبنے سے بچائیں۔
بچت اسکیموں پر اس اصول کا اطلاق کرنا ہے تو پھر بہتر ہے کہ حکومت آئی ایم ایف اورورلڈبینک سے نہ بگاڑے۔کہتے ہیں،محمود غزنوی کے عہد میں ہندوستان کے ایک علاقے کے لوگوں نے ایک ہندو کو سمجھا بجھا کر اور مختلف ترغیبات دے کر مسلمان کر لیا اور اس کا نام اسلام الدین رکھ دیا۔نو مسلم، عبادات کی ادائیگی میں پیدائشی مسلمانوںسے زیادہ پرجوش اور پرعزم ہوتے ہیں۔اسلام الدین بھی محلّے کی مسجد میں باقاعدگی سے حاضر ی دینے لگا۔ لیکن ایک دن مسجد کے مولوی صاحب نے اسے ایک مندر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر سر جھکاتے اور زیر لب’’ رام رام‘‘ کہتے دیکھا اورسنا تو اسے ڈانٹا’’ابے یہ کیا؟تُو تو مسلمان ہوچکا ہے!‘‘اسلام الدین نے مولوی صاحب کو نظر بھر کر دیکھا اور مصالحت آمیز لہجے میں کہا’’میاں جی، انسان کو چاہیے کہ بگاڑے کسی سے نہیں۔نہ جانے کون، کب کام آجائے!‘‘