آصف علی زرداری اور عمران خان صاحب نے اپنے دلوں میں کشادگی پیدا کی اور بلوچستان سے آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے ایک نئے اور صاف ستھرے دِکھتے سینیٹر کو پاکستان کے ایوان بالا کا چیئرمین منتخب کروا دیا۔ مساوی حقوق کے حامل صوبوں کے نمائندوں پر مشتمل وفاق کی علامت ٹھہرائے اس ایوان کی چیئرمینی حاصل کرنے کے بعد بلوچستان کا احساسِ محرومی دور ہوگیا۔ اب باری تھی پنجاب کے جنوب میں صدیوں سے آباد سرائیکی وسیب کی۔کسی زمانے میں ایک بہت خوش حال، جدید اور خودمختار سمجھی ریاست بہاولپور ہوا کرتی تھی۔ اسے ون یونٹ بناتے ہوئے مغربی پاکستان اور بعدازاں اس یونٹ کے خاتمے کے بعد جنرل یحییٰ خان نے صوبہ پنجاب میں ضم کردیا تھا۔ اس ریاست کے باسیوں نے یہ انضمام کبھی دل سے قبول نہیں کیا مگر ”تخت لہور“ پر قابض زور آوروں نے ان کے جذبات کا احساس تک نہ کیا۔ 2018 مگر ان کے لئے بالآخر خیر کی خبر لے آیا ہے۔سابقہ ریاست کے میاں والی قریشیاں سے 2002 میں ایک خوب رو اور ذہین سیاست دان نمودار ہوئے۔ مخدوم خسرو بختیار ان کا نام تھا۔ جنرل مشرف نے انہیں وزارتِ خارجہ کا ڈپٹی منسٹر بنایا۔ قومی اور بین الاقوامی امور سے کماحقہ شناسائی کے بعد نوجوان خسرو نے یہ بھی دریافت کیا کہ فقط کھیتی باڑی سے گزارا نہیں ہوتا۔ صنعت کاری کی طرف مائل ہوئے۔ شوگر انڈسٹری میں کامیاب ثابت ہوئے۔ 2008کا انتخاب مگر اپنے چچا مخدوم شہاب الدین کے مقابلے میں ہار گئے۔ چاچا مخدوم مگر پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایفی ڈرین سکینڈل کی زد میں آگئے وگرنہ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد ان کا وزیر اعظم منتخب ہوجانا یقینی تھا۔ شہاب الدین پر آئی مصیبتوں نے خسروبختیار کو 2013کے انتخابات کے ذریعے آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا رکن منتخب کروانے میں آسانیاں پیدا کیں۔ منتخب ہوجانے کے بعد وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے۔ تخت لہور سے آئے نواز شریف نے مگر ان کی قدر نہ کی۔کونے میں دبکے دہی کھاتے رہے۔ دسترخوان اپنا مگر ہمیشہ وسیع رکھا۔ بہت عاجزانہ روئیے کے ساتھ اپنے ہم عصروں اور سینیٹرز کی مہمان نوازی سے ملکی سیاست کے اسرار و رموز کو اپنی گرفت میں لانے کی مشقت سے گزرتے رہے۔ مناسب ہوم ورک کے بعد اب انہوںنے ایک بہت ہی محترم، زیرک اور بزرگ سیاستدان میر بلخ شیرمزاری صاحب کی سرپرستی میں ”صوبہ جنوبی پنجاب محاذ“ بنالیا ہے۔ بہاولپور سے ڈی جی خان تک پھیلے علاقے سے کئی Electables نون کے لاحقے والی مسلم لیگ چھوڑ کر اس محاذ میں شامل ہوچکے ہیں۔ مزید کی توقع ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں یہ محاذ قومی اور پنجاب اسمبلی میں ایک طاقت ور گروپ کی صورت ابھرے گا۔Hungپارلیمان میں ایسے گروپس مخلوط حکومتوں کو Make or Breakکی صورتیں دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ مخدوم خسرو بختیار کی محنت شاقہ کی بدولت ”صوبہ جنوبی پنجاب محاذ“ کو یہ قوت عطا ہوگئی تو تخت لہور کے تسلط کی وجہ سے سرائیکی وسیب میں برسوں سے اُبلتے احساس محرومی کی تشفی کا بھی راستہ نکل آئے گا۔
بلوچستان اور سرائیکی وسیب کے احساس محرومی دور کرنے کے راستے ڈھونڈنے کے بعد اب ذکر ہو رہا ہے کراچی کے احساس محرومی کا۔ ایم کیو ایم نے اس احساس کو مہاجر قومیت کے نام پر دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ احساس محرومی دور نہ ہوا مگر اس کی بنیاد پر بنی جماعت فسطائی ہوگئی۔ بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں سے وابستہ جماعت جسے بالآخر ریاستی قوت کے سامنے جھکنا پڑا۔ بانی اس جماعت کے کئی برسوں سے لندن میں بسے ہوئے ہیں۔ ریموٹ کنٹرول سے اس جماعت کو Top Downانداز میں چلانے کے قابل نہ رہے۔ جماعت موصوف کے مکمل کنٹرول سے آزاد ہوکر بکھر گئی۔ ان دنوں پی آئی بی اور بہادر آباد میں بٹی ہوئی ہے۔ فاروق ستار اسے متحد و منظم نہ رکھ پائے۔ایم کیو ایم کے انتشار سے چند ماہ قبل مگر کراچی کے ایک زمانے میں بہت ہی ہونہار شمار ہوتے میئرمصطفےٰ کمال نے ”پاک سرزمین“ کے نام سے ایک نیا پلیٹ فارم تشکیل دینا شروع کردیا تھا۔ مجھ خبطی نے اسے ”کمال کی ہٹی“ کہا۔ یہ دُکان مگر اب میٹھا پکوان تیار کرنا شروع ہوگئی ہے۔ کئی برسوں سے ایم کیو ایم سے وابستہ Electables اس میں شامل ہونے کو بے چین ہیں۔ امید باندھی گئی تھی کہ ایم کیو ایم کے انتشارکے بعد ایسے لوگ اس ملک میں پہلے سے موجود مین سٹریم پارٹیوں میں شامل ہوجائیں گے۔ پیپلز پارٹی مگر انہیںبہت ٹھوس وجوہات کی بناءپر گھیر نہ پائی۔ عمران خان کی تحریک انصاف ان کے لئے بہت ہی مناسب متبادل ثابت ہوسکتی تھی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب کے علاوہ مگرماضی میں ایم کیو ایم سے وابستہ کوئی اور نامور شخص ”نیا پاکستان“ بنانے کے خواہاں قافلے میں شامل نہ ہو پایا۔کراچی کا احساسِ محرومی اپنی ترکیب میں خاص ہے۔ محض اس احساس محرومی پر خصوصی توجہ دینے والے ایک مخصوص پلیٹ فارم کی تلاش تھی تشخص جس کا واضح طورپر جداگانہ ہو۔ مصطفےٰ کمال کی ”پاک سرزمین پارٹی“ اب احساسِ محرومی اور تشخص سے جڑے مسائل سے نبردآزما ہونے کے قابل نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔ کراچی اور سندھ میں ”شہری‘ شمار ہوتے حلقوں میں اس کے نامزدکردہ امیدوار آئندہ انتخابات میں اپنی قوت ثابت کرنے کو تیار ہیں۔ کئی لوگوں کا بلکہ اصرار ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں مصطفےٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی سندھ کے ”شہری“ حلقوں کی ویسی ہی نمائندہ بن کر ابھرے گی جیسے کئی برسوں تک ایم کیو ایم ہوا کرتی تھی۔
سندھ کے ”دیہی“ حلقوںکے بارے میں ایسا اعتماد نظر نہیں آرہا۔ اسلام آباد میں بیٹھے مجھ ایسے کاہل صحافی اگرچہ محسوس کررہے ہیں کہ شاید ”ایک زرداری....“ کی جماعت ہی سندھ میں صوبائی حکومت بنانے کے لئے اکثریتی جماعت بن کر ابھرے۔ ”اندر کی خبر“ رکھنے والے ”ذرائع“ سے مالا مال صحافی لیکن مجھے بتارہے ہیں کہ سندھ کے ”دیہی“ حلقوں میں اب کی بار طاقت ور Electablesاپنا جلوہ دکھائیں گے۔ GDAاور مولانا فضل الرحمن کی JUI، شمالی سندھ میں پیپلز پارٹی کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہو چکے ہیں۔ لیاقت جتوئی اور مخدوم شاہ محمود قریشی باہم مل کر تحریک انصاف کو چند نشستیں ملنا یقینی بنارہے ہیں۔ جو گیم مجھے بتائی گئی ہے اگر کامیاب ہوگئی تو ”دیہی سندھ“ سے کوئی ایک جماعت متحد ومنظم حیثیت میں صوبائی حکومت بنانے کے قابل نظر نہیں آئے گی۔ اسے مصطفےٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی سے رجوع کرنا ہوگا اور مصطفےٰ کمال اپنا تعاون صرف اسی صورت فراہم کریں گے اگر انہیں سندھ کا وزیر اعلیٰ بنانے پر اتفاق ہو۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ”صوفی منش“ مصطفےٰ کمال ہوس اقتدار کی وجہ سے سندھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے خواہاں نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سندھ کا شہری متوسط طبقہ مسلسل سوال اٹھا رہا ہے کہ کسی ”خاندانی وڈیرے“ ہی کو سندھ کی وزارتِ اعلیٰ کے قابل کیوں تصور کیا جاتا ہے۔ یہ منصب اب ”جدید ذہین والے“ شہری متوسط طبقات کے مصطفےٰ کمال جیسے Delivererکو ملنا چاہیے تاکہ ”وڈیرہ شاہی کے تسلط میں جکڑے“ سندھ میں گڈ گورننس کا آغاز ہوسکے۔ مختصراًََ بلوچستان اور سرائیکی وسیب کے بعد اب کراچی کے احساس محرومی کو دور کرنے کا بندوبست بھی ہونے والا ہے۔
٭٭٭٭٭