دنیا کے ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ، مراعات یافتہ اور تہذیب یافتہ تین ممالک امریکہ، برطانیہ اور فرانس پر جنگی جنون سوار ہے۔ یہ تینوں ممالک گزشتہ 29 سال سے ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ سینئر جارج بش کے زمانے میں فرانس سے امریکہ کا رومانس گہرا ہوا تھا۔ مارگریٹ تھیچر اگرچہ اچھی اور معتدل خاتون وزیراعظم تھیں لیکن فرانس کی رومانوی فضا نے ان کی توجہ بھی کھینچی تھی۔ 1989ءمیں تینوں ممالک کا قرب بڑھنے لگا۔ دوستی تو پہلے بھی تھی لیکن اب مفادات بھی اہمیت اختیار کرنے لگے تھے۔ فرانس کو ایک طرف برطانیہ کی تہذیب و تمدن، دلکشی اور دلآویزی مسمور کر رہی تھی دوسری طرف امریکہ کی طاقت نے فرانس کو امریکہ کا اسیر کر دیا۔ رونالڈ ریگن نے بھی فرانس کو بہت متاثر کیا تھا۔ بعدازاں 1990ءمیں خلیج کی جنگ جو سراسر بلاوجہ تھی .... اس نے ان تینوں ممالک کو ایک نکتہ پر مرکوز کردیا یعنی تیل کے کنوئیں .... مسلمانوں کو پسپا کرکے ان کی معدنیات پر قبضے کی خواہش۔ متحدہ عرب امارات کی دولت، سعودی عرب کی حشمت اور عظمت، ایران، عراق، شام، اردن، یمن، مصر، لیبیا، افغانستان اور پاکستان میں بڑھتا ہوا اسلامی نظام سب کو کھٹک رہا تھا۔ اسرائیل تو عرصہ درازسے فلسطین کو تختہ مشق بنائے ہوئے تھا لیکن امریکہ کے سپر پاور بننے کے بعد واشنگٹن ڈی سی میں سولہ اسلامی ممالک کو ٹارگٹ کیا گیا۔ جن میں ایران، عراق، فلسطین، یمن، لیبیا، شام، مصر، افغانستان، پاکستان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب سمیت سات اور اسلامی ممالک تھے۔ افغانستان کی سرکشی، پاکستان کی ایٹمی طاقت، مصر کی قدیم تاریخی اہمیت، سعودی عرب کی عظمت و حشمت اور شام، عراق کی مذہبی فوقیت امریکہ کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی چنانچہ امریکہ نے خلیج کی خود ساختہ جنگ کا آغاز کیا۔ دو مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے لئے مدمقابل لا کھڑا کیا اور سعودی عرب کے ساحلوں تک رسائی حاصل کر لی۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد مسلم دشمنی کھل کر سامنے آ گئی۔ کرنل معمر قذافی، صدام حسین اور یاسر عرفات کا بدترین انجام سب کے سامنے ہے۔ دو دہائی قبل سار دنیا ان کے نام سے بھی ڈرتی تھی۔ مغربی دنیا پر ان کی ہیبت طارق تھی لیکن پھر سب نے ان کا عبرتناک انجام دیکھا۔ فلسطین کو تو برسوں سے بارود کا ڈھیر بنا رکھا ہے۔ پھر انہوں نے عراق اور ایران کو برسوں ایک دوسرے سے لڑائے رکھا اور دونوں کی طاقت کو ختم کیا۔ معیشت اور تہذیب تو ویسے بھی جنگوں میں یتیم اور لاوارث ہو جاتی ہے۔ لیبیا کے معمر قذافی کا دنیا پر رعب و دبدبہ تھا مگر معمر قذافی کی موت تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ صدام حسین کا بھی بڑا خوف تھا امریکہ خود اندر سے ڈرتا تھا لیکن نائن الیون کے بعد تابکاری ہتھیاروں کے نام پر عراق میں تیل اور خون جس طرح بہایا گیا۔ تیل کے کنوﺅں اور انسانوں کے لہو کو جس طرح آگ لگائی گئی اور عراق جیسی تاریخی سرزمین کو جس طرح نیست و نابود کیا گیا یہ بربریت میں پہلی اوردوسری جنگ عظیم کو دہرانے کے مترادف تھا۔ اس سارے عرصے میں ایران نے بہت سے سبق سیکھے اور وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔ ایران اس وقت عالم اسلامی میں واحد ملک بچا ہے جو اسلامی اقدار سنبھالے ہوئے ہے۔ ایران قدیم اور جدید کا امتزاج ہے۔ وہ سائنس اور دیگر جدید علوم سے واقف ہے۔ اسے تمام ٹیکنالوجی پر عبور ہے۔ وہ ترقی یافتہ اور خودکفیل ملک ہے۔ اس ے ساتھ ساتھ وہ اسلامی روایات کا پاسدار اور خوددار ملک ہے۔ امریکہ عرصے سے اس پر دانت گاڑے بیٹھا ہے لیکن ایران نے ہر مرتبہ امریکہ کو ذلت اور ہزیمت دی ہے۔ امریکہ کے دانت کھٹے کئے ہیں۔ نائن الیون کے نام پر امریکہ نے جہاں بلاجواز اور بغیر ثبوت کے عراق کو تباہ برباد کیا.... وہاں اسامہ بن لادن، ملا عمر اور ایمن الظہواہری کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ افغانستان کے ذریعے اس نے پاکستان تک رسائی حاصل کی۔ اپنے کنٹینرز، سپلائی اور راستوں تک رسائی کے نام پر پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر اس نے بے شمار رازوں کو پایا اور پاکستان میں ڈرون حملوں کے علاوہ، بم دھماکوں، دہشت گردی اور اسلحہ کی کھلے عام فروخت کو آسان بنایا۔ طرح طرح کے ہتھیار متعارف کئے۔ لوگوں کے ایمان خریدے، ضمیر خریدے، دماغ خریدے، ان کی سوچیں اور احساس خریدے، امریکہ جانتا ہے کہ جہاں بھوک، افلاس، مہنگائی، بیروزگاری ہو، وہاں محض چند ڈالرز میں آپ کسی کو بھی خرید سکتے ہیں اور کچھ بھی کرا سکتے ہیں۔ بیروزگاری سے ستائے ہوئے لوگ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگ موت کو بھی گلے لگا لیتے ہیں۔ امریکہ نے ابھی افغانستان اور پاکستان کی معیشت برباد کرنے، کٹھ پتلی حکمرانوں کو ڈکٹیشن دیکر ملک میں انارکی پھیلانے، این جی اوز کے توسط سے دل دماغ بدلنے اور نصابوں کے ذریعے سوچ بدلنے کے علاوہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے دونوں ممالک کی نئی نسل کو بے ضمیر، بے حمیت بنانے کے ساتھ ان میں سے حب الوطنی کا جذبہ ماند کردیا ہے۔ نئی نسل اسلاف اور مشاہیر کے بارے میں کیا جانے گی۔ نئی نسل کو توقائداعظم، فاطمہ جناح، اقبال، سرسید احمد خان اور لیاقت علی خان کے متعلق واجبی علم بھی نہیں ہے۔ افغانستان اور پاکستان مکمل طور پر اس وقت امریکہ کی زد میں ہیں جبکہ شام کا کنٹرول آدھے سے زیادہ امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ دو دن قبل امریکہ، برطانیہ، فرانس نے شام پر ہولناک حملہ کر دیا۔ میزائلوں کی بارش اور کئی بم گرائے جس کے نتیجے میں اسلامی تاریخ سے لبریز یہ عظیم ملک شام کھنڈر بن گیا ہے۔ اس کا آدھا مجرم شام کا صدر بشارالاسد ہے اور آدھا امریکہ ہے۔ جب کوئی شخص اپنے ملک کو سنبھالنے کی اہلیت کھو دیتا ہے تو وہ واقعتاً نااہل ہوتا ہے جب کسی حکمران کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا ملک اسے ڈکٹیٹ کرے تو وہ حکمران کہلانے کے لائق نہیں رہتا اور جب کوئی حاکم اپنی رعیت کو انصاف، مساوات، رزق، نوکری، امن، آزادی دینے کے قابل نہیں رہتا تو وہ انتہا درجے کا نااہل حکمران ہوتا ہے۔ بشارالاسد ہر لحاظ سے ایک نااہل حکمران ثابت ہوا لیکن وہ شخص نہایت ڈھٹائی سے شام میں دو دہائیوں سے جنگ برپا کئے ہوئے ہے اور اب شام سے اسلامی تاریخ کے تمام شواہد تباہ ہو رہے ہیں۔ وہاں قیامت صغریٰ برپا ہے، فلسطین میں تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہ کوئی فلسطینی شہادت نہ دیتا ہو جیسے کشمیر میں ہر روز مسلمانوں کا خون بہتا ہے۔ اسلامی دنیا میں تیسری جنگ کی ریہرسل تو گزشتہ چار عشروں سے مسلسل جاری ہے اب تو یہ ریہرسل بھی تیسری جنگ کا بگل بجا رہی ہے لیکن وہ مسلمان ہی کیا جو وقت پر جاگ جائیں۔ ہم کسی دوسرے اسلامی ملک کو کیا کہیں، خود ہماری اپنی حالت شرمناک ہے۔ ملک قرضوں میں جکڑا ہے، معیشت تباہ حال ہے، لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں، لوگ قتل ہو رہے ہیں، لوگ لڑ مر رہے ہیں لیکن پاکستان میں کون وزیراعظم بنے گا اسی پر سب کا دماغ لگا ہوا ہے۔