ترجمہ: بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے۔
ایک طوفان تھا۔ پہلی لہر چائنا سے اُٹھی دنیا اپنے کاموں میں مگن رہی ۔ اُدھر سے لہر نے اپنا رخ یورپ کیطرف کر دیا۔ ترقی ۔ خوشحالی کے مظہر ممالک دنوں میں ریت کی ڈھیری بن گئے ۔ سائز میں چھوٹے سے وائرس نے بھاری بھر کم معیشتوں کو لمحوں میں ردی بنا دیا ۔ لہر ختم نہیں ہوئی اب اِس کا رخ طاقت و جبروت کا مینار تھا ۔ خلاوٗں پر حکمرانی کرنے والا ملک پہلے ہی ہلے میں فرش پر آرہا ۔ ایک عالم کو آتش و بارود کا مدفن بنانے والا امریکہ کا زعم ۔ ہیبت "کرونا "نے خاک میں ملا دی ۔ شایددو مہینے ۔ ہم سب روزانہ چند گھنٹے خبریں دیکھتے ۔تبصرے سُننے اور پھر اپنے کاموں میں مگن ۔ یہی خیال رہا کہ" وبا" اِدھر نہیں آئے گی ۔ یہ سوچ ہماری غلطیوں کی بنیاد بنی ۔ فوری کام (۱) تمام سرحدوں کو بند کر دیتے نہ کر سکے (۲) زائرین کو اُدھر ہی روک دیتے اور سہولتیں فراہم کرتے ۔ نہ روک سکے ، شور مچنے پر روکا تو بنیادی ضروریات سے خالی ٹینٹوں میں ٹھہرا دیا ۔ زائرین بھاگ گئے ۔ کہاں گئے ۔ معلوم کرنے کا نظام ہی نہ تھا۔جہاں بھی پہنچے ۔" کرونا" پھیل گیا ۔ پہلے مذاق اُڑایا ۔ سوشل میڈیا کو اندھا دھند، بے سوچے سمجھے استعمال کرتے رہے ۔ ریاست حرکت میں آئی تو سبھی جاگ گئے ۔
انسان بھی عجیب چیز ہے۔ ہر کوئی یہی سوچتا ہے کہ میں محفوظ رہوں گا۔ اپنی نوعیت کی پہلی آفت جس نے دنوں میں آباد سڑکوں کو ویرانوں میں بدل دیا ۔ شاید ہم نہ سمجھتے مگر ریاستی حکم کی پاسداری ضروری تھی ۔ اس لئے اکثریت گھروں میں بیٹھ رہی ۔ نوعیت کے لحاظ سے ہم بھی عجیب قوم ہیں ۔ ذہانت ۔ فطانت ہم پر ختم ۔ ٹھان لیں تو خلا تسخیر کر ڈالیں ۔ ہنر میں یکتا تو پندو نصائح میں بھی ہر فن مولا ۔ شوبز ۔ کاروبار ۔ علم نجوم ۔ امراض کا علاج سارے دانش پارے ۔ ٹوٹکے ہمارے پاس۔ پچھلے دنوں کیا کیا آیات ۔ توبہ استغفار کے پیغامات نہیں چلے
" اللہ تعالیٰ " ہم سے ناراض اس لئے مسجدیں بند۔ خانہ کعبہ میں طواف رک گیا ۔ وغیرہ وغیرہ۔ شک نہیں انسان اپنے اعمال ۔ افعال کا ذمہ دار ہے مگر قارئین" اللہ تعالیٰ ۔ رحمن ۔ رحیم۔ کریم" تو خود فرماتے ہیں کہ اگر پنی جانوں پر ظلم کر بیٹھو تو میری طرف آوٰ ۔ صبر اور نماز سے کام لو ۔ میں پکارنے والوں کی پکار سنتا ہوں ۔ قرآن پاک میں کثرت سے رحمت ۔ فضل کی آیات پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ یقینا ہم سب نے توبہ کی ۔ روئے دھوئے۔ گو توبہ کی قبولیت آئیندہ گناہ نہ کرنے کے ارادے سے منسلک ہے اِسکے باوجود ہر مرتبہ معاف کرنے کا ذکر ہے ۔
ہم نے کیا کیا ؟ نصیحت آموز پیغامات ۔ توبہ کے بعد کا مرحلہ ۔ ہم میں سے کتنے افراد نے اپنی ساختہ چیزوں کی قیمتوں میں کمی کی ؟ چلئیے ہفتہ دیر سہی پر حکومت نے دو مرتبہ پٹرول کی قیمت کم کی ۔ اشیائے خورد نوش پر تمام ٹیکس تقریبا ً ختم کر دئیے ۔ معاشی بحران کے باوجود کھانے پینے کی فیکٹریاں ۔ سٹور تو بند بھی نہیں ہوئے تھے ۔ برس پہلے اضافہ کو پٹرول کی بڑھتی قیمت سے جوڑا جاتا تھا پر اب کی مرتبہ ؟ سرکاری کمی کے فوری بعد اشیائے ضروریہ اور دیگر سامان کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا۔ اُن لوگوں نے۔ جن کو چند گھنٹوں کا نقصان بھی نہیں اُٹھانا پڑا۔
بھوک پھر تی ہے میرے ملک میں ننگے پاوٗں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
یقین مانیے پاکستان میں کِسی بھی چیز کی کمی نہیں ۔ خرابی نظر کی ہوس ہے جو ہر مرتبہ اشیائے صرف کو کھا جاتی ہے ۔ ہم وقتی طور پر ڈر ضرور جاتے ہیں ۔ مگر سُدھرتے نہیں ۔ ارادہ بھی کرتے ہیں پر طمع کے حصار میں مقید ہو جاتے ہیں ۔ "رمضان کریم "کی آمد قریب ہے۔ ہم کو یہ تو فکر ہے کہ مساجد کُھلیں ۔ تراویح ۔ اعتکاف ہو۔ یقینا یہ جذبہ قابل تعریف ہے۔ نماز ۔ روزہ فرض عبادات ہیں کِسی طور ترک ممکن نہیں ۔ پر جو فرائض ہمارے معاشرے سے منسلک ہیں اُس بابت" قرآن کریم" کیا تلقین کرتا ہے ۔ ہم جانتے ہیں مگرنہ دیکھا ۔ نہ سُنا والی کیفیت میں خود کو محسوس کر کے کتنی بڑی غفلت کا شکار ہیں ۔ واقعی" انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے"۔ لینے کے علاوہ دینا پسند نہیں کرتا ۔ ہم اپنی فیکٹری کی بنی چیز مہنگی کرتے ہیں تو صرف ایک مال کی قیمت نہیں بڑھتی ۔ سبھی بڑھا دیتے ہیں کسی نہ کسی بہانے حوالے سے کبھی سوچا ۔ بنانے والا ۔ بیچنے والا۔ خریدنے والا سبھی چیزوں کے خریدار ایک ہی ملک کے شہری ہیں ۔ اگر ایک صنعت کار اپنی مصنوعہ چیز مہنگی نہ کرے تو دوسرا بھی نہیں کرے گا ۔ منافع لینا گناہ نہیں مگر حد سے زیادہ ظلم ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہوس۔ جہالت ہے۔ یہ قوم کبھی بھی بھوک سے نہیں مرے گی ۔ رزق کا وعدہ ہے ۔ پکا وعدہ ۔ لہذا اِس کے پیچھے ضرورت سے زیادہ بھاگنا بیکار ہے۔ محنت کی حلال کمائی بھی موجب ثواب ہوگی ۔ ہم محفوظ اور خوشحال ہیںتو آئیں روزانہ" سجدہ شکر" کو تازیست معمول بنالیں ۔خوشحالی میں اپنے ہم وطنوں کا حصہ بھی ضرور مختص کر یں۔
بظاہر تو حالات اتنے خوش کُن نہیں مگر ضرورت ہے کہ امید پھیلائیں ۔ ہر خرابی حکومت کے کھاتے میں ڈالنے کی بجائے ریاست کے کندھے بن جائیں ۔ ضروری نہیں کہ ہر طوفان ۔ بات میں سیاسی لڑائی کا تڑکا لگائیں ۔ ساری زندگی اِس قوم کے کندھے پر سوار رہنے والے دیکھیں وہ کہاں پہنچ گئے اور عوام ؟
قوم کو خطابات کی نہیں ۔ ریلیف کی ضرورت ہے نہ ہی کِسی تلقین شاہ کی ۔ بڑی بہادر ۔ حد سے زیادہ وفا کیش قوم مگر صد حیف ۔ جس سے وفا وابستہ کی وہ کھوٹا سکہ نکلا ۔ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی جماعتوں کے فنڈز اور تنخواہیں" کرونا فنڈ "میں عطیہ کر دیں۔