وزیراعظم کا احساس پروگرام سمیت عوامی خدمات کے اقدامات سیاست سے بالا چلانے کا عزم
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں ملکی سلامتی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ احساس کیش ایمرجنسی پروگرام تمام سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر نہایت شفاف اور میرٹ کی بنیاد پر چلا یا جا رہا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں وفاقی حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہی ہے۔ عوام کی مشکلات کا مکمل احساس ہے۔ کرونا کے ساتھ ساتھ غربت سے نمٹنا بڑا چیلنج ہے۔ اپنے عوام کی معاشی مشکلات کو مد نظر رکھ کر لائحہ عمل تشکیل دیا جا رہا ہے۔ کرونا ریلیف ٹائیگر فورس میں شمولیت کے حوالے سے نوجوانوں کا جذبہ قابل تحسین ہے۔ مشکلات کا شکار عوام خصوصاً کمزور اور غریب طبقے کو ریلیف کی فراہمی میں حکومت کے ساتھ ساتھ مخیر حضرات کا بھی تعاون درکار ہے۔
کرونا جس شدید نوعیت کی وبا ہے‘ اس کا مقابلہ اور تدارک جنگی طرز کے اقدامات کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے اور پوری دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اسکی تباہ کاریوں میں اضافہ اسکی ویکسین کے دستیاب نہ ہونے کے باعث بھی ہورہا ہے۔ ہلاکتوں اور متاثرین کا روزانہ کی بنیاد پر گراف اوپر جارہا ہے۔ اس بیماری کا مکمل تدارک اسکی میڈیسن دستیاب ہونے کے بعد ہی ہوسکے گا۔ اس وبا نے اب تک اموات ہی بانٹی ہیں تاہم کسی حد تک امید افزاء امر یہ بھی ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس بیماری سے محفوظ رہا جا سکتا ہے اور اس کا پھیلائو روکنا بھی ممکن ہے۔ کوئی ایک مریض بے احتیاطی سے کرونا کے پھیلائو کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کا علاج دریافت ہونے تک ہر فرد کو لازماً احتیاط کرنا ہوگی۔
کرونا وائرس کی ابتداء اب تک کی تحقیق کے مطابق چین سے ہوئی جس نے مکمل طور پر احتیاطی تدابیر کو اپنایا اور کرونا وائرس سے نجات حاصل کرلی۔ کچھ ملکوں نے اس مرض کو اس وقت سنجیدہ لیا جب پانی سر کے اوپر سے گزرنے لگا۔ ان میں امریکہ اور اٹلی شامل ہیں۔ امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے‘ صحت کے حوالے سے بجٹ بھی امریکہ ہی دنیا کے کسی بھی ملک سے بڑھ کر مختص کرتا ہے۔ صحت کی جدید سہولتوں کے حوالے سے بھی امریکہ سرفہرست ہے۔ اسکے پاس وسائل کی بہتات ہے۔ امریکہ ہی نے اس بیماری کے تدارک اور عوامی مشکلات سے نمٹنے کیلئے 2.2 ٹریلین ڈالر کی بھاری بھرکم رقم جاری کی ہے مگر ابھی تک صورتحال بدستور بدترین ہے۔ امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ رہی ہے۔ متاثرین کی تعداد بھی سات لاکھ سے متجاوز ہے۔ برطانیہ‘ فرانس‘ سپین اور جرمنی سمیت ترقی یافتہ ممالک میں موت پر پھیلائے ہوئے ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک بھی کوئی کم اسکی لپیٹ میں نہیں ہیں۔ تاہم چین سمیت ان ممالک میں صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ جہاں لاک ڈائون سمیت احتیاطی تدابیر کو حرزجاں بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں‘ ہمارے ہاں اموات اور کرونا وائرس کا پھیلائو خدشات سے بہت کم ہوا ہے۔ وزیراعظم کی زیرصدارت کمیٹی میں وزرائے اعلیٰ کی موجودگی کے دوران لاک ڈائون کا دورانیہ 30 اپریل تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ کچھ کاروبار کھولنے کی بھی اجازت دی گئی۔ ساتھ ہی وزرائے اعلیٰ کو اپنے اپنے صوبے کے حالات کے مطابق اقدامات اٹھانے کا اختیار دیا گیا۔ سندھ نے 30 اپریل تک لاک ڈائون مزید سخت کردیا جبکہ پنجاب نے 25؍ اپریل تک دورانیہ بڑھایا اور کے پی کے سمیت کئی کاروبار کھول دیئے۔ لاک ڈائون میں کے پی کے بلوچستان اور پنجاب میں نرمی صورتحال میں بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی۔ سندھ میں صورتحال میں بگاڑ کی تحقیقات کی ضرورت ہے جہاں دو ہفتے میں تین سو اموات ہو گئیں۔ اسباب سامنے نہ آسکے کیونکہ پوسٹمارٹم نہیں کیا گیا۔ سندھ میں بھی کرونا وائرس سے اموات کئی ترقی یافتہ ممالک سے کہیں کم اور مریضوں کے صحت یاب ہونے کی شرح زیادہ ہے۔
حکومت کی طرف سے جس طرح کاروبار بتدریج کھولنے کا سلسلہ جاری ہے‘ اسے پوسٹ کرونا اقدامات کا نام دیا جا سکتا ہے۔ کرونا سے ہم نجات حاصل کررہے ہیں مگر اسکے اثرات ایک عرصہ تک محسوس کئے جائینگے۔ بیروزگاری میں اضافہ ہوا‘ کروڑوں لوگوں کو روٹی روزگار کے لالے پڑ گئے۔ حکومت ایسے لوگوں کی ہر ممکن مدد کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اس نے سب کچھ محدود وسائل میں کرنا ہے۔ احساس پروگرام سیاسی وابستگیوں سے بالا ہو کر میرٹ پر جاری ہے۔ وزیراعظم خود اسکی نگرانی کررہے ہیں‘ اس کیلئے بھی شفافیت کی قوی امید ہے۔ اس پروگرام میں بے ضابطگی پر زیروٹالرنس کی ضرورت ہے۔ اس پروگرام پر ماضی کے تجربات کے باعث شاید کچھ لوگ انگلیاں اٹھائیں۔ وہ کوئی ثبوت نہیں لاتے تو اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا نام دیا جائیگا۔
کرونا کیخلاف آج پاک فوج اور عدلیہ سمیت تمام ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دو تین روز قبل سپریم کورٹ نے صحت کے معاون خصوصی کے بارے میں سخت ریمارکس دیئے تھے جس پر سوشل میڈیا میں منفی مہم دیکھی گئی جس کا وزیراعظم نے سخت نوٹس لیا ہے۔ عدالت کی طرف سے حکومت کی بجا طور پر معاونت کی جارہی ہے جس کا وزیراعظم کو ادراک ہے۔
کرونا کے اثرات سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے پاس انتہائی کم وسائل ہیں۔ آئی ایم ایف نے قرض کی قسط کے اجراء کے ساتھ امدادی رقم کی بھی منظوری دی ہے۔ اس سے بے وسیلہ لوگوںکو کسی حد تک ہی ریلیف مل سکتا ہے۔ اس موقع پر صاحب استطاعت پاکستانیوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جس کی وزیراعظم باربار درخواست کر رہے ہیں۔ آج جو لوگ اوپر والا ہاتھ رکھتے ہیں‘ وہ نیچے والے ہاتھوں کا احساس کریں مبادہ کل حالات پلٹا کھا جائیں۔