چائنہ دنیا کا پہلا ملک ہے جس کو اس وائرس نے نومبر 2019ء میں اپنی لپیٹ میں لیا۔ اس نے نہایت کمال انداز میں صورتحال کا مقابلہ کیا اور اپنے شہریوں کی جانوں کو مزید موت کے منہ میں جانے سے بچایا۔ اگر چائنہ کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو لڑائی کے اکھاڑے سے بھاگ جاتا پورا ملک قبر میں چلا جاتا۔ چائنہ نے اگر کورونا وائرس پر کچھ کامیابی حاصل کیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ جو نظر آتی ہے وہ یہ کہ پوری چائنی عوام خاص کر ووہان صوبہ کے لوگوں نے حکومتی ہدایات پر پوری طرح عمل کیا۔ مثالی طور پر ثابت کیا کہ کس طرح حکومتی احکامات کو مانا جاتا ہے۔ ایران، یو ایس اے اور یورپین ممالک میں کرونا وائرس خطرناک حد تک بے قابو ہو چکا ہے۔ روزانہ ہزاروں افراد مر رہے ہیں۔ اگر چائنی عوام اور دیگر ممالک کاموازنہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ چائنی عوام حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کے حوالے سے سنجیدہ اور محتاط رہی اور حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرتی ہوئی نظر آئی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر ممالک کے عوام غیر محتاط اور غیر سنجیدہ نظر نہیں آ رہے اور روز اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو مرتے دیکھ رہے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ تو پاکستان کی حکومت سنجیدہ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور وہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن کی ضرورت ہے۔ حکومت اپنی معاشی اور سوشل سٹرکچرکو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کر رہی ہے۔ ایمرجنسی کی صورت میں قوم کو اندھیرے میں نہیں رکھا جا سکتا اور جھوٹ کا سہارا نہیں لیا جا سکتا۔ ایمرجنسی کی صورت میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے تمام صورتحال کو عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا اور عوام سے تین خطاب کیے۔ اور تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور گھروں میں رہنے کی اپیل کی۔ دوسری طرف حکومتی احکامات پر عمل درآمد کروانے کے لئے ضلعی انتظامیہ بھی متحرک نظر آ رہی ہے اور کورونا کے حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ لاہور کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ چائنہ میں کورونا وائرس رپورٹ ہونے اور بعدازاں دوسرے ممالک میں اس کے پھیلنے کے خدشہ کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ لاہور نے ماہ جنوری سے ہی اس پر کام شروع کر دیا تھا۔ ایران میں زائرین کو بھیجنے اور واپس لانے والے ٹوور آپریٹرز کے ساتھ خصوصی اجلاس کیے اور ان سے زائرین کی لسٹیں لیں جو زائرین واپس لاہور واپس آ چکے تھے ان کے گھر گھر جا کر سیمپلز لیے گئے۔ اس طرح لاہور ائیر پورٹ اور واہگہ بارڈر پر محکمہ صحت نے خصوصی ڈیسک قائم کیے۔ پاکستان میں آنے والے ہر فرد کی سکریننگ کو یقینی بنایا۔ ماہ فروری میں کورونا کے حوالے سے لاہور میں صورتحال بہتر رہی اور کوئی بھی کورونا کا کیس رپورٹ نہ ہوا تاہم صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر بھیر میں کلورین کا سپرے کروانے کا بندوبست کیا گیا۔ کمشنر لاہور ڈویژن کیپٹن (ر) سیف انجم اور ڈپٹی کمشنر لاہور دانش افضال نے اپنی نگرانی میں اب تک شہر کے تین ہزار سے زائد مقامات پر کلورین کا سپرے کروایا اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ ضلعی انتظامیہ لاہور کو جو اگلا مسئلہ درپیش آ سکتا تھا وہ قرنطینہ سنٹر کا قیام تھا جس کے لئے کالا شاہ کاکو جوکہ لاہور شہر سے اٹھارہ کلو میٹر شمال مغرب کی جانب واقع ہے میں تین سنٹرز اڑتالیس گھٹوں میں قائم کیے گئے جبکہ چوبیس گھنٹے میں دو سو بیڈز پر مشتمل فیلڈ ہسپتال بھی قائم کیا گیا۔ اس طرح نو دن کے نہایت کم وقت میں ایکسپو سنٹر میں ہزار بیڈز پر مشتمل سہولیات سے آراستہ فیلڈ ہسپتال قائم کیا گیا۔ رائیونڈ کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے رائیونڈ بیگرز ہومز میں ایک دن میں سو بیڈز پر مشتمل فیلڈ ہسپتال بنایا گیا جبکہ لاہور کی تمام تحصیلوں میں مزید کوارنٹین سنٹرز بنانے اور فیلڈ ہسپتالوں کے قیام کے لئے جگہ کی نشاندہی بھی کر لی گئی ہے جہاں پر صورتحال کے پیش نظر اقدامات کئے جائیں گے۔ اس طرح عوام الناس کے درمیان رابطہ رکھنے کے لئے اور شکایات کے لئے کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے اور عوام الناس کو 03070002345 نمبر دیا گیا جو اب بھی فنکشنل ہے۔ بائیس کیمپ قائم کیے گئے ہیں جن پر سینیٹائزر اور ہاتھ دھونے کے لیے صابن رکھا گیاہے۔ شہر میں پانچ مستقل پناہ گاہوں کے ساتھ چھ عارضی پناہ گاہیں قائم کی گئیں تاکہ بے گھر لوگ مکمل آئسولیشن پرعملدرآمد کر سکیں۔ شہر میں سولہ موبائل یونٹس کو چلایا گیا جو لوگوں کی کرونا وائرس کے حوالے سے سکریننگ کر رہی ہیں۔ مستحقین کو احساس پروگرام کی رقم دینے کے لیے 31 سنٹرز بنائے گئے ہیں اور اب تک تیس ہزار افراد کو رقم سے دی گئی ہے۔ تمام افسران و ملازمین پوری جانفشانی سے ان سنٹرز پر سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔