انتہائی معذرت کے ساتھ اس مرتبہ پھر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ’’انسان واقعی بڑی عجیب شے ہے‘‘ یہ جانتے سوچتے اور سمجھتے ہوئے بھی کہ Covid-19 اب اُس نہج پے پہنچ چکا ہے…جہاں اس مہلک اور جان لیوا وائرس کو مذاق یا اسے معمولی بیماری تصور کرنے کے تمام دروازے مکمل بند ہو چکے ہیں۔ ہماری سوچ کا محور تا ہنوز ’’ستے خیراں‘‘ یا پھر خوف کس بات کا موت کا ایک دن معین ہے اس لئے گھبراہٹ کس بات کی؟ کے گِرد گھومتا نظر آ رہا ہے۔ بس! اسے ہی انسانی بے حسی اور خودغرضی کہا جاتا ہے۔ جن قوموں نے ’’رب العالمین‘‘ کے احکامات کو جھٹلایا اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ سانپ ،چمگادڑ اور مینڈک کی ڈشیںپہلے بھی کھائی جاتی تھیں بلکہ لندن میں تو سب سے زیادہ مہنگی ڈش ’’سانپ‘‘ کی تصور کی جاتی تھی؟ جو امیر زادے اور دنیا بھر سے آنے والے سیاح قیمت کی پرواہ کیے بغیر بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے…مگر! جس طرح ’’موت‘‘ کا ایک دن معین ہے اسی طرح رب ذوالجلال کی پکڑ کا بھی ایک دن مقرر ہے تاہم جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں دنیاکے 211 ممالک کرونا کی پکڑ میں آ چکے ہیں۔ مجھے یہاں دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ خالق کائنات کے فقط کھلے ’’توبہ کے دروازے‘‘کی اطلاع بہم پہنچانا ہے جہاں ’’کرونا وائرس‘‘ کا داخلہ ہمیشہ کے لئے بند کیا چا چکا ہے…دکھ اور افسوس تو اِس بات کا ہے کہ ’’در توبہ‘‘ کھلنے کے باوجود ہمیں اندر داخل ہونے کا اب طریقہ ہی نہیں آ رہا۔؟ ہم اپنی تمام تر توجہ تو کرونا پر مرکوز کیے ہوئے ہے مگر! اُن حفاظتی تدابیر جن میں 20 سیکنڈ تک گرم پانی اور صابن سے ہاتھ دھونا…سماجی دوری اپنے آپ کو علیحدہ رکھنا، اور ماسک اور HAND SANITIZER کا چوبیس گھنٹے استعمال ہم پر اب بھی بارگراں گزر رہا ہے۔
لندن شہر کی رونقیں اب کب بحال ہونگی؟ روشنیوں اور قمقموں میں دِل لینے اور دِل دینے کا موسم کب آئے گا؟ شاپنگ سنٹر، ریستوران ، ہوٹلز ، سنیما، تھیٹر، میوزیم ، پارک ، دوستانہ بوسے اور کھلے عام میکشی کا دور اب آ بھی پائے گا یا نہیں؟؟ بچے ماں باپ سے اور ماں باپ اور اساتذہ بچوں سے 2'' میٹر دوری کے احکامات پر مزید کتنی دیر عمل پیرا ہو سکیں گے؟ اس جان لیوا وائرس کے بارے میں معصوم بچوں کے اپنے والدین اوراساتذہ سے کئے ’’سوالوں‘‘ کے مزید درست جوابات کون دے پائے گا؟ سب سے مشکل ترین مرحلہ COVID-19 کا شکار ہماری ملکہ ، شہزادہ چارلس، ارکان پارلیمنٹ اور وزیر صحت ہی نہیں ہوئے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس مہلک وباء سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔والدین یہاں اور بھی بہت پریشان ہیں؟ میرے محلے کی باریش مذہبی اور متعدد چیرٹی تنظیموں کی سرپرستی کرنے والی شخصیت الحاج مجھے چونکہ اکثر اپنی دعائوں میں شامل رکھتے ہیں مگر کرونا کے بچائو کی طے شدہ ’’حفاظتی تدابیر‘‘ کے تحت میری اور ہر برطانوی شہری کی طرح وہ بھی ان دنوں SELF ISOLATION اور DISTENCING SELFفارمولے کے تحت اپنی رہائش گاہ میں مقید ہو کررہ گئے ہیں اگلے روز فون پر پوچھ رہے تھے کہ یہ جان لیوا وبا مزید کتنے ہفتے اور رہے گی معاملہ PREDICTION سے چونکہ تجاوز کر چکا ہے اس لیے میں نے اُنہیں عرض کیا کہ ’’توبہ کا دروازہ‘‘ اس لیے تو کھولا جا چکا ہے کہ اس وباء کا جلد از جلد قلع قمع ہوسکے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کھولے اس دروازے سے کتنی جلدی ہم گزرتے ہیں؟ کیا آپ پریشان ہیں؟ میں نے اُن سے پوچھا! میری بڑی پریشانی اپنے BED ROOM تک محدود رہنا نہیں بلکہ اصل پریشانی بچوں کے قریب ہوتے ہوئے بھی اُن سے ہمکلام نہ ہونا ہے۔ وہ بولے! اُنہیں پہلے کی طرح قدم بوسی کا شرف بخشنا اور پھر اُنکے گال نہ تھپتھپانا زیادہ ذہنی تنائو کا شکار بن رہا ہے۔ بچے چونکہ ہم سے زیادہ باخبر ہیں اس لئے وہ اس خوف سے کہ COVID-19 کے حملہ کا شکار نہ ہو جائیں دروازہ کھٹکھٹا کراب صرف یہ اطلاع دیتے ہیں کہ کھانا آپ کا آپکے بیڈ روم کے داخلی دروازے پر رکھ دیا گیا ہے؟؟ جب یہ منظر دیکھتا ہوں تو بارگاہ رب العزت کے آگے جھکا دیتا ہوں کہ یہ دن بھی دیکھنے تھے۔ ’’کرونا‘‘ کے خاتمہ تک مقابلہ جاری رکھنے کا عہد لیے میری کئی جرنلسٹ دوست بھی میدان عمل میں کود چکے ہیں۔ محمد آصف سلیم مٹھا کچھ زیادہ ہی ACTIVE نظر آ رہے ہیں۔
دیگر دوستوں کی طرح پاکستان کمیونٹی سنٹر ولذڈن گرین کے چیئرمین اور کونسلر طارق ڈار ایم ۔ بی ۔ ای بھی مستحقین کے لئے خشک خوراک جمع کرنے میں دن رات مصروف ہیں۔ اسی طرح ممتاز شاعر اور پاکستان ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل احسان شاہد چودھری بے گھر اور بھوکے افراد کو انتہائی عزت و احترام سے ’’مفت کھانا‘‘ پیش کر رہے .ہیں۔
توبہ کادروازہ کُھل چکا تاخیرکیسی؟
Apr 17, 2020