ایک دوست کے توسط سے ایک نئے بابا جی کا معلوم چلا۔ بس پھر کیا تھا ہم نے ملاقات کی کوششیں شروع کر دیں۔ دوست نے اتنا بتا رکھا تھا کہ بابا جی کی عمر تقریباً 90 سال کے قریب ، بھلے زمانے کے پوسٹ گریجویٹ، وسیع مطالعہ راولپنڈی سے تقریباً 150 کلو میٹر دور ایک بستی میں رہائش پذیر، سادگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ چند دن پہلے پیغام آیا کہ اتنے بجے تیار رہنا ہمیں تمہیں گھر سے پک کر لیں گے۔ بابا جی سے مل کر نہ صرف طبیعت شاد ہوئی بلکہ لطیف سا احساس ہوا کہ نہ جانے ہم طویل عرصہ کہاں بھٹکتے رہے۔ دور افتادہ بستی (جس کا نام پتہ بتانے کی اجازت نہیں) میں اتنی بڑی لائبریری، یہ سب باتیں میرے لیے کچھ باعثِ تعجب تھیں۔ دیسی مرغی، تندور کی روٹیاں، پودینے کی چٹنی سے ہماری تواضع کی گئی۔ گفتگو شروع ہوئی تو پوچھنے لگے، بیٹا جی ا للہ ، نبی پاکؐ اور قرآن سے کس قدر واقفیت ہے۔ عرض کیا کہ چونکہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہوں اس لیے جو بنیادی علم ہونا چاہئیے اتنا ضرور ہے۔ کہنے لگے قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ اس سے پہلے بھی اللہ نے کچھ نبیوں کے ذریعے اپنی کتابیں بھیجی ہیں۔ اس پر کیا کہتے ہو۔ عرض کیا پہلی کتابیں ضرور بھیجی گئیں جو اب تک تصدیق شدہ انداز میں موجود نہیں، اور خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآنِ پاک آخری اور فائنل کتاب اور اس کا ایک ایک لفظ سچ ، میں اس کی ضمانت دیتا ہوں اور اسی طرح نبی مصطفیؐ آخری نبی، جن کے ذریعے یہ کتاب آئی۔ اس کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا اور یہیں پر نبوت کا مکمل خاتمہ۔ ضمناً عرض کیا کہ نبی پاکؐ کی سیرت مبارک ہمارے لیے مشعلِ راہ، بابا جی نے تبسم فرمایا، کہنے لگے کہ یہاںتک سب ٹھیک ہے۔ اب ذرا آگے چلتے ہیں۔ یہ فرمائیں کہ آپ کے گھر میں قرآن مجید ہے۔ عرض کی جی ہاں۔ کم از کم 7/8 قرآن پاک موجود ہیں۔ کہنے لگے کہ یہ کہاں رکھے گئے ہیں۔ میں نے بتایا کہ ہمارے پاس 2/3 کتابوں کے شیلف ہیں۔ ان میں نمایاں جگہ پر۔ کہنے لگے کہ گھر میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔ عرض کی کہ میری بیگم اور ایک بیٹا باقاعدہ پڑھتے ہیں۔ باقی نسبتاً کم یا نہ ہونے کے برابر۔ اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ نے کیا خود با ترجمہ قرآن پڑھا ہے۔ عرض کیا۔ ایک آدھ بار کہنے لگے چند دنوں میں روزے شروع ہو جائیں گے تراویح ملک بھر کی تمام مساجد اور دیگر مختص جگہوں پر لاکھوں کروڑوں لوگ آئیں گے۔ حافظ صاحب کی تیز رفتار تلاوت میں جو پڑھا جائے گا وہ سمجھ آ جاتا ہے۔ سچ بات ہے کہ میں سمجھ گیا کہ اب بابا جی کے سوالات کا جواب دینا شاید میرے بس میں نہ ہو۔ کہنے لگے افطاری اور تراویح میں بھی خصوصی انتظامات ہوتے ہیں۔ کبھی اپنے گھر کے باہر سے نکل کر ادھر ادھر بھی دیکھا، میں شرمندگی سے سر نہ اٹھا سکا۔ بابا جی میری کیفیت سمجھ چکے تھے۔ کہنے لگے بیٹا میں نے آج آپ کو شرمندہ ہونے کے لیے نہیں بلایا، مجھے معلوم ہے کہ آپ لکھاری بھی ہیں۔ میں آج آپ کو کچھ سمجھانا چاہتا ہوں تاکہ اس سے نہ صرف آپ کا بھلا ہو جب کے مخلوق کا بھی۔ اللہ تعالی رب العالمین ہیں وہ قطعاً رب المسلمین نہیں۔ ایک بات، دوسرا قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے جو تمام بنی نوع انسانوں کے لیے ہے۔ یہ کتاب چودہ سال قبل آئی مگر یہ رہتی دنیا تک روشنی ہے، ہدایت ہے، نور ہے۔ رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم تحقیق کرتے جائو۔ اس کی وسعتوں اور گہرائی میں جاتے جائو تو بہت کچھ "Discover" کر سکتے ہو اور تم ترقی کی معراج تک پہنچ جائو گے۔ ایسی معراج کہ جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بابا جی نے پہلو بدلا۔ مزید چائے لانے کا کہا، فرمانے لگے کہ دہائیوں پہلے فرانس کے ایک سائنسدان اور پروفیسر آف میڈیسن نے جو پیدائشی عیسائی تھا اس نے بائبل کو ایک مذہبی کتاب کے طور پر پڑھنا شروع کیا۔ چند ہی دنوں میں اسے احساس ہوا کہ یہ خدا کی کتاب نہیں۔ پھر اس نے اسی کتاب کو ایک سائنسدان کی حیثیت سے پڑھنا شروع کیا۔ جلد ہی اسے احساس ہوا کہ یہ خدا تو کیا کسی عام سے سمجھدار آدمی کی بھی لکھی کتاب نہیں۔ اس کی پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس نے دیگر مذہبی کتابوں کو ٹٹولنا شروع کیا۔ یکدم "Maurice Bueaille " یعنی مصنف کو قرآن پاک ملا۔ وہ چونکہ عربی میں تھا اس لیے پڑھنے کے لیے مختلف تراجم حاصل کیے۔ بدقسمتی سے متراجم بھی چونکہ کسی نہ کسی انسان کے لکھے ہوتے ہیں اور اس میں لکھنے والے کا مزاج اور علم کی سطح بھی دیکھنا لازم ہے۔ چنانچہ وہ مطمئن نہ ہو سکا اور ساتھ ہی اس نے یہ محسوس کیا کہ نقطہ نظر کا فرق بھی موجود ہے۔ یہ سب کچھ کر گزرنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ اسے عربی پڑھنا چاہئیے اور وہ بھی عرب میں جا کر۔ یہاں آ کر اس نے پڑھائی شروع کر دی۔ وہ بہرحال ایک بڑا اور نامور شخص تھا اس نے علم کی گھتیوں کو مزید سمجھنے کے لیے شاہ فیصل (اس وقت وہ زندہ تھے) سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ملاقات میں بہت ساری باتوں کو زیر بحث لایا اور پھر ان کی نگرانی میں قرآن پاک کو پہلے عربی میں اچھی طرح پڑھا۔ پھر اس کا مطالعہ ایک مذہبی کتاب کے حیثیت سے کیا اور اس کے بعد ایک محقق اور سائنسدان کی حیثیت سے اس نے ایک ایک لفظ پڑھا، دیکھا اور سمجھا۔ واپس جا کر اس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام "The Bibal, The Quran & Science" ہے۔ اس کتاب میں اس نے لکھا کہ بلاشبہ یہ کتاب وحی کی صورت میں نبی آخر الزمان ؐپر نازل ہوئی۔ مگر میں پورے دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ خدا کی کتاب ہے۔ خدا نے جس جگہ جو جو کہا، اس پر تحقیق کی ضرورت ہے اور برسوں بعد تحقیق نے ہی آج سائنس کو اتنی ترقی دی۔ ویسٹ نے یہ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کے لیے ایک نیا پراپیگنڈہ بھیج دیا ۔ جس طرح عیسائیت حضرت عیسیٰ سے منسوب ہے اس طرح اسلام اور مذہب کو نبی کریمؐ کے ساتھ منسوب کرنے کی کوشش شروع کر دی اور روز بروز وہ اس میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے۔ چاہئیے تو یہ تھا کہ ہمارے پاس پہلے خدا کا ایک واضع تصور ہونا چاہئیے اس کے بعد اپنے پیغام کو بھیجنے کے لیے شخصیت کا انتخاب، صادق اور امین، عمدہ ترین کردار، اخلاقی طور پر بہت بلند، غم گسار، محبت کرنے والے، نیز وہ کونسی خوبی ہے جو ہمارے آخری نبی پاکؐ میں موجود نہیں۔ اور پھر ان کی 63 سالہ عملی زندگی پھر کتاب، ایسی کتاب کہ جس کی کوئی نظیر نہیں، جو ایک جامع ترین کتاب ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس کتاب کو کسی بلند جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔ کسی عام مصنف کی لکھی کتاب اور اللہ کی کتاب کو دیکھ کر دل میں کوئی چمک نہیں پیدا ہوتی۔ یا پھر عربی میں پڑھ لیتے ہیں اور کسی بھی لفظ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ دوسری طرف اپنے نبی پاکؐ سے محبت کا دعویٰ تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کی بتائی ہوئی ہدایات پر اور ان کے ذاتی اعمال کے مطابق زندگی گزارنا تو بہت دور کی بات نزدیک بھی نہیں جاتے۔ ہم ناموسِ رسالت اور تاجدارِ ختم نبوت کے علمبردار بننے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر نہ سیرت ویسی نہ اور اعمال ویسے۔ راجہ صاحب آج آپ میرے دوست کے مہمان کی حیثیت سے یہاں آئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ خالی نہ جائیں۔ میں نے بھی آج نہیں تو کل چلے جانا ہے۔ اور جانا آپ نے بھی ہے۔ آپ کو خدا نے لکھنے کی صلاحیت دی ہے۔ میرے ساتھ وعدہ کریں کہ باقی زندگی فارغ اوقات میں صرف دو ہی کام کریں گے۔ اول کہ لوگوں کو مائل کریں کہ قرآن پاک کو اس طرح پڑھنا ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے اور دوسرا ناموسِ رسالت کا تحفظ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہماری ساری زندگی سیرت مبارکہ کی طرح نہیں ہو گی۔ یہ کہتے ہوئے گرمجوشی سے ہمیں رخصت کیا۔ قارئین کرام: اس رمضان المبارک میں آئیں صدقِ دل سے یہ عہد کریں! اللہ یقینا ہماری مدد فرمائیں گے۔