پاکستانی نابینا طالبہ کی روڈس اسکالرشپ  میں جیت

ایک پاکستانی نابینا طالبہ نے 2021 کے لئے پاکستان کے روڈس اسکالر کے انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے تاریخ رقم کر دی ۔ اس وقت قطرکے جارج ٹاؤن یونیورسٹیکیمپس میں تعلیم حاصل کرنے والی، خانسہ ماریہ اگلے موسم خزاں میں آکسفورڈ یونیورسٹی جائیں گی تاکہ وہ ثبوت پر مبنیپالیسی مداخلت اور معاشرتی تشخیص کے مضامین میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرسکیں۔ ۔ نابینا ہونے کی وجہسے، پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران خانسہ کو خاصی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا، وہ جسمانی طور پر معذور افراد کے لئے کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ خانسہ ماریہ ، جو جسمانی طور پر معذور افراد کو درپیش چیلنجوں سے بخوبی واقف ہیں، ان کے حقوق کی وکالت کرنے کی کوشش میں قابل رسائی برادریوں کے ڈیزائن کے بارے میں گہرا جذبہ رکھتی ہیں۔ وہ محسوس کرتی ہے کہ ان کی اپنی برادری کی طرف ایک خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس حد تک معاملات میں بہتری لائیں جس سے پاکستان میں ان جیسے لوگوں کو فائدہ ہو۔ جارج ٹاؤن کے قطر کیمپس جہاں وہ اس وقت زیر تعلیم ہیں، امریکی معذوری ایکٹ کے مقرر کردہ معیارات پر عمل کرتی ہے- انکے آبائی شہر لاہور میں اب بھی، زیادہ تر جگہیں جسمانی طور پر معذوروں کی رسایئمیں نہیں-جارج ٹاؤن کے قطر کیمپس میں وہ جس مضمون میں تعلیم حاصل  کر رہی ہیں، وہ ثقافت اور سیاست میں مرتکز ہونے کے ساتھ ، فارن سروس میں بیچلر کی ڈگری ہے۔ ان کو یقین تھا کہ فارن سروس یا اقوام متحدہ کی میں کام کرنا ان کا ہدف ہوگا لہذا وہ جارج ٹاؤن میں شامل ہوئیں تاکہ وہ اپنی وکالت کی صلاحیتوں اور سفارتی مذاکرات کی صلاحیت پر توجہ مرکوز کرسکیں-بینائی کی خرابی نے ماریہ کو پیچھے نہیں رکھا کیوں کہ وہ ایک کیمپس لیڈر رہی ہیں اور مباحثہ یونین، ساؤتھ ایشین سوسائٹی، اور ہویا لیڈرشپ پاتھ وے سمیت بہت سی تنظیموں میں شریک رہیں۔ وہ قطر میں امریکی سفارتخانے میں بھی کام کر چکی ہیں، جس نے انہیں سفارتکاری کی باریکیوں سے آگاہ کیا۔ اپنے معذور ہونے کا ادراک ہونے کی وجہ سے ماریہ معذور افراد کی وکالت کرتی ہیں- انہوں نے جنوبی ایشیاء کے تناظر میںمعذوری کے حقوق کی تحریک کے ارتقا پر اپنا مقالہ لکھاہے۔ عالمی وبائی مرض COVID-19 کے آغاز نے ان کے تحقیق کی کوششوں میں کچھ رکاوٹ پیدا کردی تحقیق کے لئے متعدد دوروں کو منسوخ کرنا پڑا۔ ماریہ کو روڈس اسکالرشپ پروگرام سے متعلق اس وقت دلچسپی پیدا ہوء جب انہیںبھارت کے ایک اسکالر نے اطلاع دی،  جو خود بھی نابینا تھے- وہ درخواست دینے سے پہلے خوف زدہ تھیں لیکن اس کی پیروی کی۔ ان کا انتخاب حیرت انگیز طور پر ہوا لیکن وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلے کی منتظر ہیں، جہاں انہیں اپنے قیام کے دوران  بہت کچھ سیکھنے کی امید ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹیمیں اپنے تجربے کے بارے میں وہ اطمینان کا اظہار کرتی ہیں کہ وہ وہاں کی طلبائ￿  برادری کی ایک سرگرم رکن تھیں- وہ قطر نیشنل ریسرچ فنڈ (کیو این آر ایف) گرانٹ کی وصول کنندہ تھیں جس کی وجہ سے وہ قطری ورک فورس میں معذور افراد کی شمولیت پر اثر انداز ہونے والی رکاوٹوں پر تحقیقات کرسکیں۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹیکی اس طالبہ نے معذور افراد کو عملی صلاحیتوں سے آراستہ کرنے کے لئے اپنے لئے بہتر مستقبل بنانے کے لئے "امید برائے کل" کی بنیاد رکھی۔ تعلیمی سوشل میڈیا مہموں کے ساتھ ساتھ ، امید کے لئے انہوں نے پیشہ ورانہ ترقی کے کورس کی پیش کش کی ہے۔ "میں خود کو معذوری کے حقوق کا کارکن کہتی ہوں ، لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔" روڈس اسکالر کا کہنا ہے کہ، "جو تبدیلیاں ہم دیکھنا چاہتے ہیں ان میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ اگلا قدم مجھے اس تبدیلی کے کے قریب لاے گا۔ میرے جارج ٹاؤن کے سفر نے مجھے یہ سکھایا کہ اپنے حقوق کے لئے اور داخلی ساختی قابلیت کے خلاف لڑنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا ہے اور اس کے باوجود یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم تمام تر مشکلات کا مقابلہ کریں۔" ایان آلمونڈ، جارج ٹاؤن قطر میں عالمی ادب کے پروفیسرہیںاور ماریہ کے آنرس تھیسس فیکلٹی کے استاد کے طور پر فاِیز تھے، وہ تبصرہ کرتے ہیں: "اپنی کم عمری کے باوجود ، خانسہ ماریہ بہت سے بنیادی نظریاتی نمونوں کی ایک قابل رشک حس رکھتی ہیںوہ  نسوانی مسایل کے بعد ، تعمیرات، صدمے کا نظریہ ، نئی تاریخ نگاری، وغیرہ اور ان کی بہت سی پیچیدگیوں پر گفتگو کرنے میں ماہر ہیں۔"آلمونڈ کہتے ہیں: "خانسہ ماریہکو علم حاصل کرنے کی ناقابل یقین بھوک ہے  اورکسی طالب علم میں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔"جارج ٹاؤن قطرکے ڈین احمد دلال، جارج ٹاؤن قطر ویب سائٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیںماریا جارج ٹاؤن کے بہترین حصوں کی مثال پیش کرتی ہے۔ وہ مشاہدہ کرتے ہیں: "گریجویٹ اسکول میں درخواست دینے والے انڈر گریجویٹ کے لئے، کچھ امتیاز ات ہیں جو وقار کے لحاظ سے روڈس اسکالر شپ کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ اس نمایاں کارنامے پر ہمیں اپنی طالبہ خانسہ پر بے حد فخر ہے ، اور ہم جارج ٹاؤن سے آگے ان کے علمی سفر کی پیروی کرنے کے منتظر ہیں کیوں کہ وہ قطر فاؤنڈیشن میں شروع ہونے والی اس اہم پالیسی پر تحقیق پر کام کر رہی ہے۔ خانسہ جارج ٹاؤن کی تعلیمی،  تنقیدی سوچ اور ذمہ دارا نہ اور اخلاقی عمل کی قدروں کو ظاہر کرتی ہیں۔"سیکھنے کے لئے اپنے جوش و جذبے اور جوش کے ساتھ ، ماریہ کا مستقبل ایک روشن مستقبل ہے کیونکہ وہ معذور افراد کے لئے جامع ترقی اور استعداد کار کی تشکیل کے لئے پالیسیاں بنانے کا راستہ بنانا چاہتی ہیں۔ ان کا مقصد پاکستان واپس جانا اور معذور افراد کو یکساں تعلیمی مواقع کی ضمانت دینے کے لئے قانون سازی کے مسودہ تیار کرنے میں مدد دینا ہے تاکہ وہ قانونی تحفظ کے ساتھ افرادی قوت کا حصہ بننے کے لئے ضروری مہارتیں حاصل کر سکیں۔

ای پیپر دی نیشن