بھارت کے نقشے پر نظر ڈالیں تو شمال مشرق کی جانب سات ریاستوں پر مشتمل ایک پٹی دکھائی دیتی ہے جسے تاریخی طور پر ’’سیون سسٹرز‘‘یعنی سات بہنیں بھی کہاجاتا ہے۔ ان ریاستوں کو بنگلہ دیش اور بھوٹان نے ڈھانپ رکھا ہے۔ یہ ریاستیں بھارتی ریاست مغربی بنگال کی ایک پٹی کے ذریعے بقیہ بھارت سے منسلک ہیں۔ شمال مشرقی بھارت کی سیون سسٹرز (سات بہنیں)کہلا نے والی سات ریاستیںآسام، تریپورہ، ہماچل پردیش، میزورام،منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ باغی تحریکوں کا مرکز سمجھتے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، اڑیسہ،مدھیا پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علیحدگی پسند گروپ سرگرم ہیں لیکن ناگالینڈ کے ناگا باغی اورنکسل باڑیوں کی تحریک بھارتی وجود کیلئے حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ایک بھارتی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صرف آسام میں 34باغی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو ملک کے 162اضلاع پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ جن میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن ، برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا، مسلم ٹائیگرز، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، گورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ سر فہرست ہیں۔ دوسری جانب ایسی ہی تحریکیں ناگالینڈ،منی پو ر اور تری پورہ میں بھی جاری ہیں۔ ناگا لینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل سب سے زیادہ موثر ہے جب کہ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگرز فورس، نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی اور کوکی ڈیفنس آرمی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
اسی طرح تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس، تری پورہ آرمڈ ٹرائبل فورس، تری پورہ مکتی کمانڈوز اور بنگالی رجمنٹ جدوجہد کر رہی ہیں جبکہ ریاست میزورام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ علیحدگی کی تحریک کو آگے بڑھا رہی ہے۔ یہ علیحدگی پسند تنظیمیں جن میں زیادہ تر مسلح تنظیمیں ہیں، ایک سیکولر سٹیٹ کا کچا چٹھا کھول دینے کیلئے کافی ہیں۔ان عسکری گروہوں میں بیس کے قریب تو ایسے ہیں جو حقیقت میں بھارتی وجود کو مسلسل کھوکھلا کر رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔علیحدگی کی تحریکیں بھارتی حکومت اور ریاست کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ان تحریکوں نے بھارت کے دیگر حصوں آندھرا پردیش اور مغربی بنگال پر بھی اثرات مرتب کئے ہیں۔ دوسری جانب بھارت لداخ اور ارونا چل پردیش پرچین کے موقف سے بھی پریشان ہے۔ علیحدگی کی ان تحریکوں نے بھارت کے ریاستی نظام کو بری طرح مفلوج کر رکھا ہے۔ دراصل بھارت کثیرالثقافتی اور کثیر السانی و مذہمی ملک ہے۔ اگرچہ وہ دعویٰ توجمہوریت کا کرتاہے، تاہم اس کے باوجود بھی وہاں کی اقلیتیں سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔ دیگر مذاہب سے صرف نظر کر کے صرف ہندومت ہی کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بھارت میں ہندوئوں کی نچلی ذاتیں بھی انتہائی غیر انسانی سلوک کا شکار ہیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہی ہیں تاہم اس کے باوجود بھی ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اچھوتوں نے بھی ’’دی دلت فریڈم نیٹ ورک‘‘ کے نام سے آزادی کی تحریک شروع کر ر کھی ہے۔
اس تناظر میں عالمی میڈیا کا بھی مانناہے کہ بھارت عسکریت پسندی کی وجہ سے اس وقت سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک بن گیا ہے جہاں 317 عسکری کیمپ کام کر رہے ہیں۔ یہ گویا کہ عراق و شام کے بعد بم دھماکوں اور ہلاکتوں کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے۔ عالمی میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق بھارت میں مائو نواز باغیوں، تامل علیحدگی پسندوں، خالصہ تحریک اور کشمیری مجاہدین سمیت آزادی کی دیگر تحریکیں بھی عروج پر ہیں جس کے سبب علیحدگی پسندوں کی قوت میں بتدریج اضافے کے بعد بھارت کے 2025 تک کئی ٹکڑوں میں بٹنے کے امکانات حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔بھارت سے علیحدگی یا آزادی کی کوئی بھی تحریک سر اٹھاتی ہے تو بھارتی فوج تمام جائز و ناجائز ذرائع اور ظلم و جبر کے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے اسے کچل دیتی ہے۔ لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے، ان کی جائیداد و املاک نذر آتش کردی جاتی ہے، خواتین کی عصمتیں پامال کرنے میں کوئی شرم اور جھجھک محسوس نہیں کی جاتی۔ نوجوانوں کو گرفتار کرکے بغیر مقدمہ چلائے جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال دیاجاتا ہے جہاں سے اکثر کبھی واپس نہیں آتے۔