ایمرسن یونیورسٹی۔۔۔ حلوائی کی دکان ، نانا جی کی فاتحہ

ہماری ملکی سیاست میں دکھاوے کا عنصر تب شامل ہوا جب سیاستدانوں نے خدمت کی بجائے مفادات کو مقدم رکھنا شروع کیا۔سیاستدانوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو آئندہ انتخابات سے مشروط کر دیا۔ چنانچہ ان کا ہر عمل دکھاوے سے زیادہ کچھ نہ رہا۔ وہی تسلسل لمحۂ موجود میں بھی جاری ہے۔ تین رفاہی اور فلاحی شعبے سب سے پہلے مفادات کی بھینٹ چڑھے۔ تعلیم، صحت اور ہاؤسنگ۔ سابقہ ادوار میں ان تینوں شعبوں کو نہ صرف کمرشل بنیادوں پر استوار کیا گیا بلکہ انہیں پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں دے کر ایک طرف تعلیم ، صحت اور چھت عوام سے چھین لی گئی تو دوسری طرف سب سے زیادہ منفعت شعبے ہونے کی وجہ سے حکمرانوں کی نظروں میں خوب جچے۔ کسی شعبۂ زندگی کا رونا کیا روئیں، یہاںتو سیاست کو ہی کاروبار بنا دیا ہے۔ انتخاب اب کروڑوں سے کم کی گیم نہیں ۔ کمائیں گے تو اگلے انتخاب میں لگائیں گے۔ سینیٹ انتخاب میں بولیاں لگنا تو کل کی بات ہے۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار کیا ہے تو جواب ہو گا سیاست۔آگے سیاستدانوں کیلیے سب سے منفعت بخش شعبے تعلیم، صحت اور ہاؤسنگ ہیں۔ اس وقت کون سا سیاستدان ہے جو ان تینوں میں سے کسی کاروبار میں مال نہ بنا رہا ہو۔خصوصاًتعلیم کے نام پر جو مذاق اس وقت ہماری نئی نسل کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بڑے بڑے ادارے کن کی ملکیت میں ہیں وہ کون نہیں جانتا۔ حکومتیں خود بھی اس مذاق میں برابر کی شریک ہیں۔ سابقہ ادوار میں متعدد کالج کے بورڈز اتار کر ان پر یونیورسٹی کا نام چسپاں کر دیا گیااور کریڈٹ لیا گیا کہ اتنی یونیورسٹی نئی بنائی گئی۔ حقیقت میں صرف نام بدلے گئے، معیار نہیں۔ موجودہ حکومت سے جتنی اُمیدیں وابستہ کی گئیں اس نے عوام کو اتنا ہی مایوس کیا۔ عمران خان کی نیت پر شک کی گنجائش نہیںمگر افسوس کی ان کی جیب میں سارے کھوٹے سکے ہیں۔کس کس کا نام لیں، کچھ کا تو حال سب کے سامنے ہے کچھ ایکسپوز ہو رہے ہیں۔ سب کمائی کیلئے حکومت میںشامل ہوئے ا ور دن رات کما رہے ہیں۔ اور تو اور رشوت کے ریٹ بھی سابقہ ادوار سے بڑھ گئے ہیں۔ خواتین کالج ملتان کو خواتین یونیورسٹی جبکہ ایمرسن کالج کا نام ایمرسن یونیورسٹی رکھ دیا گیا۔ ’’حلوائی کی دکان پہ نانا جی کی فاتحہ‘‘۔ بندہ پوچھے کہ کالج کا نام ہٹا کر یونیورسٹی نام رکھ دینے سے کیا کالج کا انفراسٹرکچر یونیورسٹی میں تبدیل ہو جائے گا۔ لیبارٹریز، لائبریریز اور فکلٹیز وہی کالج کی اور فیسیں یونیورسٹیز کی۔جو چند ہزار سے یکدم پہنچ سے باہر ہو جائیں گی۔ خواتین یونیورسٹی میں یہی ہوا۔ ایمرسن کالج جس نے گزشتہ سال اپنے 100سال مکمل کیے، جنوبی پنجاب کا درخشاں روایات کا حامل ادارہ تھا ۔ پچھلی حکومت نے جنوبی پنجاب کا خواتین کاسب سے بڑا کالج چھین کرعوام کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا اور موجودہ حکومت نے ایمرسن کالج کو ہتھیا کر ہزاروں طلبہ کو معیاری اور سستی تعلیم سے محروم کر کے رکھ دیا۔ دروغ بر گردنِ راوی، مبینہ طور پر یہ سب کچھ انہوں نے اپنے ایک عزیز کی خوشنودی کیلیے کیا،جو آئندہ اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے اُمیدوار بھی ہیں۔ اساتذہ، طلبہ اور والدین دو ماہ سے سراپا احتجاج ہیں، مگر افسر شاہی ، صاحب کی خوشنودی میں ، ’’سب اچھا‘‘ کہہ رہی ہے، دو ماہ سے سراپا احتجاج اساتذہ اور طلبہ کو ’’چند شر پسند‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔حالانکہ اساتذہ کا مفاد یونیورسٹی میں ہے۔ نئی یونیورسٹی یقیناً خطے کی دیرینہ ضرورت ہے،لیکن کالج کی قیمت پر یہ سب کسی طور مناسب نہیں۔ ایمرسن یونیورسٹی کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا اسے جاری رکھا جائے مگر کسی دوسری جگہ، کالج کو ختم نہ کیا جائے کہ ایک تو کالج کی حیثیت کسی عام کالج کی نہیں،جنوبی پنجاب، بلکہ دیگر صوبوں سے ہزاروں طلبہ اپنی تعلیم ضروریات اس سے پوری کر رہے ہیں۔ ملتان کے متعدد کالج ایسے ہیں جہاں طلبہ کی تعداد ضرورت سے کم ہے ، چار سالہ بی ایس پروگرامز کی وجہ سے بھی وہاں گنجائش ہے۔ وہاں یونیورسٹی کی ابتدائی کلاسز شروع کی جا سکتی ہیں ۔ ایمرسن کے ہی کسی ایک گوشے میں بھی ایسا ممکن ہے۔ بہاء الدین یونیورسٹی، اور اسلامیہ یونیورسٹی نے بھی تو کالجز سے ہی جنم لیا تھا، جب ذوالفقار بھٹو نے 1975میں یہ دویونیورسٹیز بنائیں۔ 
تب کسی کالج کو داؤ پر نہیں لگایا گیا۔ ڈیرہ غازی خان میں گورنمنٹ کالج بھی تعلیمی توسیع پسندی کی نذر ہو چکا ہے جہاں گزشتہ دور میں غازی یونیورسٹی کا سفید ہاتھی باندھا جا چکا ہے۔ وزیر اعلیٰ سے ہمدردانہ التماس ہے کہ یونیورسٹی خطے کی ضرورت ہے تو کالج اس سے بڑی ضرورت ہے۔ جنوبی پنجاب کے غریب طلبہ اور ان کے والدین پر اتنا بڑا ظلم نہ کریں۔یہ دونوں کام بغیر کسی اکھاڑ پچھاڑ کے سہولت سے ہو سکتے ہیں ،کالج بھی رہے اور خطے کو یونیور سٹی بھی مل جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن