مافیا گردی

اسے ہماری بدقسمتی ہی کہہ لیجئے کہ ہم اب تک مختلف قسم کے مافیاز کا شکار رہے ہیں، طرح طرح کے مافیاز نے عوام کی زندگیوں میں بہت گہرے پنجے گاڑ رکھے ہیں، ہم ان کے زیر ِتسلط ہیں، حیرت تو یہ ہے کہ اس سلسلہ میں سرکار اختیارِ کل ہونے کے باوجود نہ ان پر پوری طرح سے قابو پاسکی ہے اور نہ ہی عوام کے پاس اتنا اختیار اور طاقت ہے کہ ان کا سرکچل سکے۔عوام تو ان تمام مافیاز کے درد اورظلم وستم سہنے کیلئے ہمہ وقت تیار بیٹھی ہوتی ہے، کہیں سڑکوں پر آجانیو الا مافیا جو ہر شے کو قبضے میں کرکے بلیک میلنگ کرتا ہے۔ جن کی وجہ سے ایمبولینس میں جانیو الے مریض سے لیکر ہسپتالوں میں زندگی و وموت کی کشمکش میں پڑے مظلوم ہر وقت سڑکوں کی بندش سے دوا نہ ملنے کے سبب آخری ہچکی لے لیتے ہیں کچھ اور طرح کے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان سب کی آہ وبکاء شورشرابے میں ہی گم ہوجاتی ہے، کہیں مہنگائی کرنے والا مافیا جس سے سرکار بھی بے خبر ہوتی ہے۔ہوش تب آتا ہے جب پانی سر سے بہت اْونچا ہوچکا ہوتا ہے، جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور یہی سرکار میڈیا پر آکر سہولت سے اپنی بے خبری اور اپنی بے بسی کا اظہار کردیتی ہے۔اگرچہ یہ تمام مافیاز اول رو ز سے ہی قوم کی رگوں میں سرایت کرچکے ہیں لیکن پچھلے دو تین سال کے عرصہ میں ان کی شہرت میں خاص طور پر اضافہ دیکھنے کو ملا ہے عوام کہتے ہیں کہ ہمیں مافیاز نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔حکومت کہتی ہے ہماری بے خبر میں سب کچھ ہوا اور ہمیں خود ان کا علم نہیں تھا۔یہ بات مجھے شدید حیرت میں مبتلا کردیتی ہے۔ ایک طرف وہ مسائل جو پاتال کی تہہ سے بھی ڈھونڈ کر لے آیا جاتا ہے ایک طرف سامنے کے یہ مسائل جو عوام کو درپیش ہیں اور نظر نہیں آتے۔مجھے اس منظر نامے سے اْس کبوترکا خیال آتا ہے جو خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اپنی آنکھیں خوف سے بند کرلیتا ہے۔ سچ کہیں تو اپنے اردگرد بھی ایسی ہی صورت حال نظر آتی ہے۔ چینی مافیا آج کل خبروں کی زینت ہے دیکھیں پیش رفت کا آخر کار کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اگرچہ مجھے تو اچھی امیں  ہیں چلیں یار انِ غار سے آغاز تو ہوا۔ دشمن تو خیر دشمن تھے دوستوں کی صورت ِ آستینوں میں چھپے سانپوں کے ڈنگ نے خبردار تو کردیا کہ سب اچھا اچھا ہرگز نہیں ہے۔ اس صورتحال کے انجام بخیر کی طرف سے کافی پر اْمید ہوں لیکن دوسری طرف یہ ہوا کہ دکانوں سے چینی ناپیدہوچکی ہے اور رمضان کا مہینہ آغاز ہوچکا ہے۔ آٹا مافیا، پیٹرول مافیا، پانی مافیا یہ اپنی اپنی کارستانیوں یا شیطانیوں میں مصروفِ کار ہیں۔قبضہ مافیا کی تو بات ہی کیا کیجئے نہ جانے کتنے معصوم لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی کو قبضے میں کئے ہوئے تھے۔ قبضہ مافیا سے ایک خیال آیا کہ حکومت بہت سی زمینیں واگزار رکروانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ یہ بھی ایک اچھا اور قابل ِ تحسین قدم ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوکہ اسی واگزارکروائی گئی زمین کو ہی لوگوں کے گھروں اور قرضہ کی رقم سے خریدے جانے کیلئے استعمال کرلیا جائے تاکہ عوام کو اچھی رہائشی جگہ دستیاب ہوسکے۔قرضہ کی رقم اور رقم سے خریدے جانے والی زمین یا جائیداد ایک الگ کالم کا متقاضی عنوان ہے۔ جس کے بارے میں اگلے کسی کالم میں ذکر کروں گی۔ گاڑیوں کی چوری کرنیوالے مافیا کی بھی نشاندہی ہوچکی ہے اور جنگلات کی چوری کرنے والے مافیاز بھی۔ اْمید ہے انکے بارے میں بھی سختی سے کوئی کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ ہمارے اپنے اندر بھی کئی اقسام کے مافیاز سرگرم ہیں، ہم کہیں نہ کہیں خود بھی اس کا حصہ ہیں، یعنی شکاری بھی خود اور شکار بھی خود ہی ہیں۔ انکا توڑ کون کرے گا؟
ہم خود ان کیخلاف کیوں اْٹھ کھڑے نہیں ہوتے، اپنی آوازیں بلند کیوں نہیں کرتے۔ یہ بھی تو ایک جہاد ہے ظلم کے خلاف جہادہمارا فرض بھی ہے۔ آج ہم ان مافیاز کی مخالفت نہیں کرینگے تو انکی زور آوری اور ظلم مزید تر ہوتے چلے جائینگے۔کیا ہم اس کیلئے بھی انتظار کریں گے کہ کوئی باہر سے آکرہمیں بچا لے۔ آپ کو اکثر ڈاکٹرز کے پاس جانے کا اتفاق ہوتا ہوگا۔ ڈاکٹر آپ کو جو بھی دوا تجویز کریگا۔ وہ ملے گی بھی اسی ڈاکٹر کے تجویز کردہ میڈیکل سٹور سے ورنہ ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں تب بھی یہ نایاب ادویات دستیاب نہ ہوسکیں گی۔ آپ کو انہی ڈاکٹرز کی تقویض کردہ لیبارٹریز میں ہی اپنے ٹیسٹ بھی کروا کر ان کا رزلٹ ڈاکٹر کو دینا ہوگا ورنہ وہ نہ ہی تو اپنا باقی ماندہ علاج جاری رکھے گا اور نہ ہی ان مہنگی ترین لیبارٹریز کے علاوہ کسی اور لیبارٹری کاٹیسٹ قبول کریگا یہ ایک الگ داستان ہے جس سے آپ سب بھی واقف ہوں گے میں یہ بھگت چکی ہوں اور آپ میں سے بے شمار لوگ بھی بھگت چکے ہوں گے اور بھگت رہے بھی ہوں گے۔ ان لوگوں کو بھی کوئی پوچھنے والا ہے کہ نہیں؟ پاکستان میں Covid-19کی ویکسین پہنچ چکی ہے بلکہ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ اس سے استفادہ بھی کرچکے ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ تو کوئی نئی بات نہیں بالکل ایسا ہی ہے۔لیکن ہسپتالوں سے سینکڑوں کے حساب سے ویکسین غائب ہوئی ہے۔ یہ کہاں گئی اور کیوں گئی اس کا جواب ابھی باقی ہے، کہیں اس کے پیچھے بھی کوئی مافیا تو نہیں؟

ای پیپر دی نیشن