صحافت کو طاقت اور اقتدار کی غلام گردشوں سے کھینچ کر عام آدمی کی جھونپڑی تک لانے والے پاکستان کے منفرد صحافی جناب ضیاء شاہد کہا کرتے تھے کہ قلم میری زندگی ہے اور قلم کے چلنے سے میری سانسیں چلتی ہیں قلم رک گیا تو میری سانسیں بھی رک جائیں گی۔ گزشتہ سال کورونا کے شدید حملے نے انہیں دفتر سے گھر منتقل کردیا ۔ ان کا قلم رک گیااور قلم کا رکنا تھا کہ انکا کہا حرف بحرف سچ ثابت ہوا اور انکی سانسیں ہمیشہ کیلئے رک گئیں ۔
ایک کاتب سے چیف ایڈیٹر بننے کے سفر میں ضیاء شاہد نے لاکھوں اتار چڑھاؤ دیکھے ، یتیمی دیکھی ، رشتہ داروں کے رویے دیکھے ، دینی مدارس کے حالات دیکھے ، غربت و تنگی دیکھی مگر ایک مزدور سے حکمران تک ہر شخص سے سیکھا۔ وہ کہا کرتے تھے میرے پاس پیسے تو ہیں نہیں ہاں مگر محنت ہے میں تو صرف محنت ہی کرسکتا ہوں اور ایک مرتبہ مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے میاں غفار ! ہم سوائے محنت کے اور کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ جب ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تو پھر اس واحد راستے کو اختیار کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیوں کیا جائے؟
جناب ضیاء شاہد سے میری پہلی ملاقات روزنامہ جنگ کے دفترمیں تب ہوئی جب میں وہاں خبر دینے کیلئے گیا ۔میرے بڑے بھائی کے دوست طاہر مجید میگزین سیکشن میں تھے۔کہنے لگے الیکشن سیل کیلئے رپورٹرز کی ضرورت ہے۔ اپلائی کردو ، میں ان د نوں ایم اے ابلاغیات کے پارٹ ٹو کا امتحان دے کر فارغ تھا ۔ میں نے وہیں سے ایک کاغذ لیا اس پر درخواست لکھی اور یہ اخباری کاغذ پر میری پہلی تحریر تھی ۔اس کے بعد زندگی میں لاکھوں کاغذ لکھے اور لکھتا ہی چلا گیا ۔ درخواست پر اپنے گھر کا فون نمبر لکھا ۔ دوگھنٹے بعد فون آیا ۔ آپ میاں غفار بول رہے ہیں ۔ میں نے کہا جی ۔دوسری طرف سے آواز آئی میں ضیاء شاہد بول رہا ہوں ۔آپ کی ہینڈ رائٹنگ اچھی ہے مگر آپ کو درخواست دینے کا طریقہ نہیں ہے۔ اسناد کی کاپیاں درخواست کے ساتھ لگاتے ہیں ۔ آپ کل اسناد کی کاپیاں لیکر دفتر آجائیں۔اگلے روز مجھ سے صرف ایک سوال کیا آپ کے پاس سواری ہے ۔ میں نے کہا جی ہے۔ پوچھنے لگے کیا ہے ۔ میں نے کہا گاڑی ہے ۔کہنے لگے ہم نے تو الیکشن سیل کیلئے ٹرینی رپورٹرز رکھنے ہیں۔ اسے صرف اعزازیہ ملتا ہے اور ہم نے یہ اعزازیہ 1500 رکھا ہے آپکے پاس گاڑی ہے آپ کو 1800 دے دینگے اور یوں اخباری دنیا میں میری انٹری ہوگئی ۔اگلے روز سے کام شروع کیا تو جناب شاہد کو ایک تیز لکھنے والے نوجوان کی ضرورت تھی۔اس وقت جناب شوکت اشفاق الیکشن سیل میں میرے انچارج تھے۔ضیاء شاہد نے انہیں کہہ کر مجھے بلوایا اور پہلے دن ہی پچاس سے زائد سلیپیں میں لکھ کر انہیں دے چکا تھا ۔ وہ بولتے ہوئے نہیں تھک رہے تھے اور میں لکھتا ہوا تھک نہیں رہا تھا۔ اللہ کی طرف سے دی گئی تیز لکھنے کی اسی اکلوتی خوبی نے مجھے جرنلسٹ بنادیا۔
جناب ضیاء شاہد پر تو کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ ہزاروں واقعات ہیں لیکن کالم میں جگہ کم ۔ایک مرتبہ ایک لڑکا کمرے میں داخل ہو کر ان کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہے ۔اپنی اعلی تعلیم بتاتا ہے ۔ بیروزگاری کا رونا روتا ہے کہ مجھے کوئی بھی نوکری دے دیں ۔ جناب ضیاء شاہد کو طیش آجاتا ہے اسے گالی دیتے ہوئے کہنے لگے کہ تمہیں شرم نہیں آتی اتنا پڑھ لکھ کر نوکری کی بھیک مانگتے ہو، مجھے چیلنج کرو کہ جناب مجھے موقع دیں مجھ میں اچھا جرنلسٹ بننے کی صلاحیت موجود ہے ۔ خاصی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اپنی ایڈمن مینجر کوبلا کرکہا ان کے نام کا لیٹر بنادو یہ کل سے سب ایڈیٹر ہوںگے ۔ اس کی پھر سے کلاس شروع ہوگئی کہ خبردار اگر آئندہ نوکری کی بھیک مانگی ۔ میں نام لیے بغیر بتاتا چلوں کہ اس وقت ان کا شمار چند پائے کے نیوز ایڈیٹرز اور کالم نگاروں میں ہوتا ہے ۔
1992ء میں جناب ضیاء شاہد کی گاڑی پر اسلام آباد جاتے ہوئے دو راتوں کے مسلسل رت جگے اور نیند کی حالت میں میں نے گاڑی ٹرک کے نیچے گھسا دی ۔ میرے ساتھ میاں حبیب،محمد سلیمان اور اطہر عارف بھی تھے ۔ جناب ضیاء صاحب نے بھی ہمارے ساتھ لاہور سے اسلام آباد جانا تھا مگر وہ بذریعہ جہازچلے گئے اور ہم مندرہ کے قریب حادثے کا شکار ہوگئے ۔ مجھے شدید زخمی حالت میں گاڑی کا دروازہ توڑ کر نکالا گیا ۔ ہم چاروں کو اللہ نے نئی زندگی دی مگر ہڈیاں جا بجا ٹوٹ چکی تھیں ۔خوشنود علی خان صاحب نے چار ایمبولینس گاڑیاں روانہ کیں اور پمز میں ہنگامی بنیادوں پر ہمارا علاج شروع ہوگیا ۔ تب موبائل کی رینج اتنی زیادہ نہ تھی ۔ سرپرٹوپی ہاتھ میں تسبیح پکڑے ضیاء صاحب کبھی ایک بیڈ کی طرف بھاگتے تو کبھی دوسرے کی طرف ۔ وہ مسلسل کچھ پڑھ کر ہمارے اُوپر پھونکیں ماررہے تھے۔ پھر انہوں نے موبائل فون سے میری والدہ کو فون کیا کہ میاں غفار ٹھیک ہے ، چوٹیں لگی ہیں مگر خطرے والی بات نہیں ۔ ماؤں کو کہاں چین آتا ہے وہ چاہتی تھیں کہ میرے ساتھ بات ہوجائے ۔
ضیاء صاحب وارڈ سے باہر جاکر فون ملاتے ۔ بھاگ کر اندر آتے اور میرے کان سے فون لگا کر کہتے کہ انہیں بتاؤ تم ٹھیک ہو ۔ لیکن اندرآتے ہی سگنل ڈراپ ہوجاتے ، انہوں نے یہ عمل چار پانچ مرتبہ کیا ۔ پھر کھول کر میری والدہ سے بات کروائی ۔ میں مکمل ہوش میں تھا بلیڈنگ رک چکی تھی ، مگر مجھے آج تک پتہ نہ چل سکا کہ وہ کونسا ورد تھا جو ضیاء صاحب کرتے اور پھونکیں مارتے جاتے تھے ۔ انہوں نے زندگی کی پہلی نئی گاڑی لی تھی ، جو خریدنے کے دس دن بعد ہی میرے ہاتھوں کباڑ خانے کا حصہ بن چکی تھیں ۔ تنگ دستی کے ساڑھے چار لاکھ بہت بڑی رقم ہوتی ہے ۔ مجھے یاد ہے اس حادثہ کے بعد ضیاء صاحب ایک بار پھر پرانی گاڑی پر چلے گئے ۔
ملتان سے روزنامہ خبریں کا آغاز کیا تو مجھے بانی ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنا کر بھیجا ۔ پہلے دن کا اخبار چھپ گیا تو میں دفتر کے قریب ایک ہوٹل میں رات کے آخری پہر جاکرسویا ۔ ضیاء صاحب ابھی دفتر تھے ۔ جون کی گرمی تھی، ہوٹل کے کمرے میں اے سی خاصا تیز چل رہا تھا ۔غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ ضیاء صاحب کمرے میں داخل ہوکر ہم دو افراد پر چادریں ڈالنے لگے ۔ میں اُٹھ بیٹھا تو کہنے لگے سوئے رہیں ۔ اے سی تیز چل رہا تھا اس لئے میں نے موٹی چادریں ڈال دی ہیں ۔ یہ ضیاء شاہد تھے۔
ضیاء صاحب ایک اچھے کاتب ، ایک اچھے مشین مین ، بہت اچھے پلیٹ میکر، کمال کے سب ایڈیٹر، منفرد سٹائل کے فیچر رائٹر، باتوں کی تکرار کے ساتھ قاری کو ساتھ لے کرچلنے والے لکھاری تھے۔کاش ان میں غصہ نہ ہوتا،تو وہ سونے میں تولنے والے آدمی تھے مگر غصے نے ان کی شخصیت کو زندگی بھر متنازع بنائے رکھا ۔ ہمارے ایک رپورٹر کو ایک صوبائی وزیر (اگر وہ زندہ ہوتے تو نام لکھ دیتا) نے گالی دی اور اسکے ساتھ بدتمیزی کی تو ضیاء صاحب نے ایک کو دس سے ضرب دے کر بدلہ لیا۔ ضیاء صاحب سے ناانصافیاں بھی ہوئیں ، حق تلفیاں بھی ہوئیں ،ان پر زندگی بھر الزامات بھی لگے اور جو سختیاں، تلخیاں، ناانصافیاں، محرومیاں انہوں نے اپنے بچپن اور جوانی میں دیکھیں۔ بدقسمتی سے وہ انہیں ضرب دے کر لوگوں میں تقسیم کرتے رہے مگر ان کی زندگی کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی تھا کہ وہ بہت جلد معاف کرنے اور بھلا دینے والے تھے۔مجموعی طور پر پاکستان میں جدید اور جرأتمندانہ صحافت کا ایک بہت بڑا نام تاریخ کا حصہ بن گیا۔